Maktaba Wahhabi

405 - 668
بصیرت: یہ قصہ بالکل جھوٹ اور جعلی ہے: 1۔ اس کی اسناد بالکل غلط اور منقطع ہیں ۔ 2۔ اس کا راوی کلبی کذاب ہے۔ (میزان الاعتدال اور حاشیہ ترمذی ص:۴۴۶) 3۔ یہ قصہ تواتر کے خلاف اور متناقض ہے۔ سورت بنی اسرائیل مکہ میں نازل ہوئی اور یہ قصہ مدینہ شریف کا ہے، لہٰذا یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ تفسیر جامع البیان میں اس کے کذب اور جعلی ہونے کی یہی وجہ ذکر کی گئی ہے۔ پس ان دلائل کے لحاظ سے اس امر کی وضاحت ہو گئی کہ یہ قصۂ غرانیق کی طرح از سر تا پاکذب اور جعلی ہے۔ پس پادری صاحب کے تمام اعتراضات جو اس قصے کی بنا پر تھے، غبار کی طرح اڑا دیے گئے۔ الحمد للّٰه علیٰ ذلک۔ اگر بہ فرض محال اس قصۂ باطلہ کو تھوڑی دیر کے لیے تسلیم بھی کیاجائے، تاہم وہ ہمارے مخالف نہیں ہے۔ ہم اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ تمام مخلوق نبی ہوں یا ولی یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، خدا کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا، البتہ انبیا علیہم السلام کو بذریعہ وحی و الہام کے شریعت پہنچائی جاتی ہے۔ اسلام کی یہی تعلیم ہے۔ پس بنا بریں رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہود کے فریب میں آ گئے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہ تھے، مگر جب بذریعہ وحی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا فریب معلوم ہوا۔ بہرکیف یہ قصہ ہمارے مخالف نہیں ہے، لیکن ہم اس کو بوجہ کذب ہونے کے تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن تعجب خیز اور حیرت انگیز اندھیر کی بات تو یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جو عیسائیوں کا کامل خدا ہے، اسے غیب کا علم نہیں تھا، جب ہی تو شیطان کے فریب کا مغلوب رہا۔ یہ عجیب خدا ہے کہ شیطان کے فریب سے نجات بھی نہ پا سکا اور عالم الغیب بھی نہیں تھا !! تنبیہ: مخالفینِ اسلام جعلی روایات وتفاسیر وغیرہ نقل کر کے ان کی بنا پر اسلام پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں ، جس کا درحقیقت اسلام پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مخفی نہ رہے کہ اہلِ اسلام کی تفاسیر میں ضعیف اور جعلی روایات کا ذخیرہ بھی مندرج ہے۔ مفسرین پر یہ ضروری نہیں تھا کہ تفاسیر میں صحیح روایات ہی کو
Flag Counter