Maktaba Wahhabi

46 - 668
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحيم فضائل سید الانبیاء عليهم السلام پہلی آیت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور نصرت کا حکم: قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا [الفتح] [تا کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور دن کے شروع اور آخر میں اس کی تسبیح کرو] تفسیر جامع البیان اور ابن کثیر میں اس آیت کے تحت تعزیر کے معنی تعظیم کرنا اور توقیر کے معنی احترام و بزرگی اور عزت کرنے کے لکھے ہیں ۔[1] آیت میں جو جمع حاضر کے دو صیغے ہیں ، ان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر تمام امت کو خطاب کیا گیا ہے اور ان دونوں میں جو ضمیریں منصوب متصل ہیں ان کا مرجع نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، کیونکہ آپ کا ذکر ان کے قریب ہے، لہٰذا ان کا مرجع آپ ہی ہیں ۔ پس آیت کے معنی یہ ہوئے: ’’اے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ایمان لے آؤ اور اس کے رسول، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و احترام اور عزت کرو۔‘‘ پس بحکم آیتِ کریمہ کے تمام اہلِ اسلام پر آپ کی عزت و تعظیم کرنا واجب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیمات و احترامات قرآن و حدیث میں وارد ہیں ،ان پر ایمان لانا اور اس کے انکار کو کفر سمجھنا، نیز افراط و تفریط سے اجتناب کرنا، آپ کی سنت کے اتباع کو لازم پکڑنا ہی آپ کی عزت و احترام ہے۔ جاننا چاہیے کہ تمام مخلوقات میں جس قدر انبیاء و رسل کو درجہ عطا کیا گیا ہے، وہ مخلوق میں سے
Flag Counter