Maktaba Wahhabi

475 - 668
قرآن کی معجزانہ حفاظت اور اس کی بشارت اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا کہ ہم نے ذکر، یعنی قرآن کو اتارا اور ہم ہی ضرور بالضرور اس کی حفاظت بھی کریں گے۔ (سورت حجر۔ع۱) بعض کہتے ہیں کہ آیت میں جو اس کی ضمیر ہے، اس کا مرجع ذکر، یعنی قرآن نہیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ لیکن یہ غلط اور سیاق کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ قرآن کا ذکر ضمیر کے نہایت اَقرب ہے اور اس سے تجاوز کرتے ہوئے اَبعد، یعنی دور کی طرف ضمیر کو پھیرنا خلافِ قاعدہ ہے۔ (ابنِ کثیر) [1] ہر چند کہ یہ آیت قرآن کی حفاظت ہی کے متعلق ہے۔ روافض کا خیال ہے کہ قرآن خدا کے نزدیک لوحِ محفوظ میں تورات اور انجیل، بلکہ ہر چیز کی طرح محفوظ ہے، جیسا کہ قرآن کی اکثر آیات اس کی تصریح کرتی ہیں ۔ پھر قرآن کی حفاظت کے ذکر کی خصوصیت کے کیا معنی؟ دوسری آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے رب کی کتاب، یعنی قرآن سے پڑھو، آپ کی طرف جو وحی کیا جاتا ہے، اس کے کلمات کو کوئی شخص بدلنے والا نہیں ہے۔ (سورۂ کہف پارہ ۱۵ رکوع ۳) اس آیت میں خاص قرآن کے متعلق ہی پیش گوئی ہے کہ اس کے کلمات کو ہر گز کوئی شخص نہیں بدل سکے گا اور وہ ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ میں نے آپ کی طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس کو پانی مٹا نہیں سکے گا۔ (مشکاۃ جلد ۔ باب) اب ہم کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ قدرت نے اس پیش گوئی کی صداقت کے لیے کیسے اسباب پیدا کیے ہیں اور اس کی حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ ٭٭٭
Flag Counter