Maktaba Wahhabi

477 - 668
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ دونوں کو حکم دیا کہ قیامِ رمضان کی گیارہ رکعات میں صحابہ کی بڑی جماعت کے امام بن کر رات کو قرآن سنائیں ۔ (مشکاۃ، باب قیام شہر رمضان) [1] پھر صحابہ میں سے سیکڑوں ایسے تھے جنھوں نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کو حفظ کیا تھا، تاکہ کسی قسم کی کمی و بیشی نہ ہونے پائے۔ چنانچہ اس زمانے سے لے کر تا حال یہی دستور جاری ہے کہ ماہِ رمضان میں تمام ملکوں میں ہر ضلع و ہر شہر اور ہر قصبے میں سارا مہینا مسلمانوں کی بڑی جماعت کو حافظ صاحبان امام بن کر بآوازِ بلند قرآن سناتے ہیں اور جماعت میں بھی کئی حافظ ہوتے ہیں ۔ کیا مجال کہ امام ایک حرف یا زیر زَبر کی غلطی کرے۔ پس خلاصہ یہ کہ سیکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے قرآن کو یاد کر لیا تھا اور پھر ہر ایک حرف کی تحقیق کی۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم سے سیکڑوں ان کے شاگردوں نے بھی اسی طرح قرآن کو یاد کیا، جیسا کہ خود صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کیا تھا اور مسلسل اسی طرح ہر زمانے میں لاکھوں حفاظ قرآن مجید کو یاد کرتے چلے آئے اور قیامت تک، ان شاء اللہ، یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ بالفرض اگر دنیا بھر کے قرآنی نسخے نابود کر بھی دیے جائیں اور صرف ایک نسخے کو مقابلے کی غرض سے باقی رہنے دیا جائے تو فوراً ویسا ہی نسخہ، جو رکھ لیا گیا تھا، حفاظ کے سینے سے قلم بند کیا جا سکتا ہے، جس میں ایک حرف تو کیا زیر زبر کا فرق بھی نہیں ہو سکتا، پھر صحابہ میں سے اتنے حافظ ہو گئے تھے کہ وہ ایک بڑے لشکر کی تعداد میں تھے، جو لڑائیوں میں بھیجے جاتے تھے، جیسا کہ عن قریب آئے گا۔ انصاف کی نظر: جس کتاب کے حفظ کا یہ معجزانہ اہتمام کیا گیا ہو اور متواتر قواعد و ضوابط مقرر کیے گئے ہوں تو اُس میں کسی قسم کی ملاوٹ یا کمی بیشی کس طرح ہو سکتی ہے۔ اگر قلمی لکھے ہوئے قرآن میں کاتب سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ حفاظ سے درست کر ائی جاتی ہے بخلاف اس کے کہ اگر کسی حافظ کو غلطی لگ جائے تو وہ حفاظ ہی سے درست کر ے گا نہ کہ قلمی نسخے سے۔ پس اس بات سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ زبانی حفظ کو تحریر پر ترجیح ہے، کیونکہ کوئی بھی تحریر بغیر
Flag Counter