Maktaba Wahhabi

488 - 668
تفسیری لفظ ضم کیا ہوا دیکھ لیتے ہیں تو عوام میں مشہور کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ لفظ پہلے قرآن میں تھے اب نہیں ہیں ، حالاں کہ یہ ان کا محض ایک دھوکا ہے، جس میں کوئی صداقت نہیں ۔ ایک بے سند قول: صاحبِ تاویل القرآن کی طرف سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک قول بھی پیش کیا گیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے تمام قرآن پا لیا، اس کو کیا معلوم کہ سارا قرآن کیا ہے؟ چونکہ اس سے اکثر حصہ گم ہو گیا ہے، پس اس کو یہ کہنا چاہیے کہ میں نے اس قدر قرآن کو پایا جو ظاہر ہوا۔ (اتقان سیوطی جلد ۲ صفحہ ۲۶) [1] یہ قول سند کے اعتبار سے نہایت مشتبہ اور گرا ہوا ہے۔ کسی نقاد محدث سے اس کی تصحیح مذکور نہیں ہے، لہٰذا یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہی نہیں ۔ معلوم ہوا کہ جس طرح یہ قول سند کے اعتبار سے بے اصل اور بے بنیاد ہے، اسی طرح اس کا متن بھی نہایت شاذ اور غلط ہے اور قرآن و حدیث کے ایسا متناقض ہے کہ اس میں تطبیق دینا نا ممکن ہے۔ در اصل یہ چوتھے اور پانچویں طبقے کے اقوال ہیں جو نہایت ضعیف اور غلط ہیں ، چنانچہ ایسے اقوال اتقان سیوطی اور درِ منثور سیوطی میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ ایک دھوکا: پھر اس کے بعد صاحبِ تاویل القرآن نے ایک اور حدیث اپنی کتاب میں لکھی ہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتاب اللہ پر ایک ایسی رات آنے والی ہے کہ اس میں اس کی ایک آیت بھی زمین پر نہ رہے گی۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب ذھاب القرآن و العلم) [2] اس باب میں ایک اور حدیث بھی ہے کہ جب زمانہ ختم ہونے کے قریب ہو گا تو شراب اور زنا
Flag Counter