Maktaba Wahhabi

489 - 668
کی کثرت ہو جائے گی اور علم اٹھ جائے گا۔[1] یہ حادثہ دنیا کے خاتمے اور قیامت کے قریب ہو گا، جب کہ ہر برائی میں ترقی ہو جائے گی تو خدا تعالیٰ قرآن مجید کو اپنی حفاظت میں لے گا۔ اس حفاظتِ الٰہیہ کو تحریفِ قرآن کی سند بنا کر پیش کرنا اور عوام کو دھوکا دینا سراسر حماقت اور تعصب نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ تفسیری احادیث کی نوعیت: اگرچہ ایسی احادیث خدا کی وحی تھی، تاہم قرآن نہ تھیں ۔ پھر بعض تو ان میں سے قرآن کی طرح حفظ کرائی جاتی تھیں ، پھر ضرورت کے بعد گم ہو جاتی تھیں اور بعض ان میں سے اب بھی قرآن کی تفسیر ہیں ۔ نیز ان میں قرآن جیسا اسلوبِ بیان بھی نہیں ہے۔ اگر یہ احادیث جزوِ قرآن ہوتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کو بھی کبھی جہری نماز میں پڑھتے، حالانکہ کسی صحیح حدیث سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ کبھی کسی صحابی نے ان کو نماز میں پڑھا ہو۔ پھر جن صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ احادیث مروی ہیں ، جب ان کی موجودگی میں قرآن جمع ہو رہا تھا تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست کرتے کہ یہ قرآن کی آیات ہیں ، آپ ان کو کیوں چھوڑ رہے ہیں ؟ آپ کو یہ آیات قرآن میں شامل کرنا چاہیے۔ لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک نے بھی ایسا نہیں کیا اور نہ کسی سے ایسا امر واقع ہوا۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ صحابہ خلفا کے بعد بھی بہت عرصہ زندہ رہے ہیں ، جیسا کہ کتبِ رجال سے ظاہر ہے، پس مذکورہ بالا سوالب سے نتیجہ بھی سالبہ ہی نکلتا ہے کہ یہ احادیث ہر گز جزوِ قرآن نہیں تھیں اور نہ یہ صحیح حدیث کا حکم رکھتی ہیں اور جو ان میں سے ضعیف ہیں ، وہ ساقط الاعتبار ہیں ۔ قرآن مجید سات قراء توں میں : پھر اس کے علاوہ حدیثوں میں جو یہ مذکور ہے کہ قرآن سات قراء توں میں نازل ہوا ہے تو وہ محققین کے قول کے مطابق ایسی ہیں ، جن سے الفاظ میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ البتہ حرکات اور سکنات وغیرہ اعراب میں قدرے تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ وہ مندرجہ ذیل قراء تیں اب بھی متنِ قرآن میں شامل ہیں :
Flag Counter