Maktaba Wahhabi

49 - 668
ان ہر دو آیات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل کو مطلق بیان کیا گیا ہے، کسی خاص گروہ کا ذکر نہیں ، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فضیلت دی گئی ہو۔ حالانکہ مفضل کے مقابلے میں جب تک مفضل علیہ نہ ہو، اسے مفضل کہا ہی نہیں جا سکتا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم مفضل تو بے شک ہیں ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے فضیلت حاصل ہوئی ہے۔ آیات میں کسی خاص گروہ کا اس لیے ذکر نہیں کیا گیا کہ تمام مخلوق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں مفضل علیہ ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے ا فضل و اعلیٰ ہیں ۔ قرآن نے ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے افضل و اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ احادیثِ نبویہ سے تائید: اب ناظرین کو چند احادیث سے اس دعوے کی زائد تصدیق دکھائی جاتی ہے: 1۔ جامع ترمذی کی کتاب التفسیر سورت بنی اسرائیل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معراج کی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس براق یعنی گھوڑا لایا گیا، جس کے منہ میں لگام اور پشت پر زین بندھی ہوئی تھی۔ وہ شوخی کرتا ہوا کودنے لگا تو جبریل علیہ السلام نے اس کو مخاطب کر کے فرمایا: (( مَا رَکِبَکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَی اللّٰہِ مِنْہُ)) [1] ’’یعنی اے براق تو کیوں شوخی کرتا ہے؟ تجھ پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اکرم و افضل کوئی شخص سوار نہیں ہوا۔‘‘ اس حدیث کی اسناد صحیح ہے، لیکن ترمذی نے اس کو حسن غریب کہہ دیا ہے۔ تحفۃ الاحوذی میں بحوالہ ابن حبان اس کو صحیح کہا گیا ہے۔ اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر انبیا اس پر سوار ہوتے رہے، لیکن جبریلی شہادت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سب پر تشریف و تکریم بیان کی گئی ہے۔ 2۔ مجمع الزوائد (۸/۲۱۷ مطبع مصری) میں بحوالہ طبرانی اوسط حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کا قول بیان کیا: (( قلبت مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَھَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَلَمْ أَرَبَیْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَیْتِ بَنِيْ ھَاشِمٍ)) [2] ’’میں نے تمام زمین کے مشرق اور مغرب کا سیر کیا، لیکن میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مرد کو
Flag Counter