Maktaba Wahhabi

492 - 668
کہتے تھے کہ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو لکھوایا ہے اور وہ اس پر صبح و شام پڑھا جاتا ہے تو اس بات کی تردید خدا کی طرف سے کوئی نہیں ہوئی۔ اگر کفار کی یہ بات بھی غلط ہوتی تو اس کی بھی تردید کی جاتی، کیوں کہ کفار جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ سے قرآن کو سنتے تھے، یقینا اسی طرح آپ کو قرآن لکھاتے بھی دیکھتے تھے۔ چنانچہ یہ بات مندرجہ ذیل احادیث سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی ہی میں قرآن لکھوایا، جیسا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پرجب کوئی آیت نازل ہوتی تو کاتبوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اس آیت کو فلاں سورت کی فلاں جگہ میں لکھ دو۔ (مشکاۃ، باب اختلاف القراء ات) [1] بات صاف ہو گئی: اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان مبارک سے قرآن کی ساری سورتوں کو ترتیب وار لکھوایا، لیکن وہ سب نوشتے متفرق طور پر صحابہ کے پاس محفوظ تھے۔ خدا تعالیٰ نے اُن کے جمع کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہمارا ذمہ ہے اس (قرآن) کا جمع کرنا۔ (سورۃ القیامۃ، ع ۱:۱۹) یہ آیت باعتبار مطلقہ ہونے کے جمع زبانی اور تحریری دونوں کو شامل ہے۔ پہلے خدا تعالیٰ نے سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں جمع کر کے محفوظ کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی حفظ کرایا۔ آیت کے یہ معنی سیاق اور سباق کے ساتھ مربوط ہیں ۔ دوسرا مطلب، یعنی کتابی یا تحریری جمع خلفاے ثلاثہ کے ہاتھ سے پورا کر دیا۔ ان صحابہ نے سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متفرق نوشتوں سے کتابی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق جمع کیا، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم آیات کی جمع کی خود نشان دہی فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے قرآن کے بہت سے نسخے جمع کر رکھے تھے۔ چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں چار شخصوں نے قرآن کو جمع کیا: سیدنا ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن حارث اور ابو زید رضی اللہ عنہم ۔ (مشکاۃ، بخاری و مسلم، جامع المناقب) [2]
Flag Counter