Maktaba Wahhabi

495 - 668
ساتھ متفق الرائے ہو گیا۔ پھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو ایک ہوشیار اور سمجھ دار نوجوان ہے اور ہم تجھ پر کوئی اتہام نہیں لگاتے۔ کیونکہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی بھی لکھا کرتا تھا۔ پس قرآن کے نوشتوں کو تلاش کرو اور اس کو جمع کرو۔ خدا کی قسم! اگر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ مجھ کو پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ اٹھا دینے کا حکم دیتے تو میرے لیے قرآن جمع کرنے سے آسان ہوتا۔ پھر میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی وہی کہا جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کہا تھا کہ آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا؟ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہمیں کہا: واﷲ! یہ کام بہتر ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے ساتھ بحث کرتے رہے، یہاں تک کہ خدا نے میرا سینہ کھول دیا اور میں بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہو گیا۔ پس میں نے قرآن کی تلاش کرنی شروع کر دی اور میں نے قرآن کو کھجور کے برگ، یعنی پتے اور شاخوں اور سفید پتھروں اور رقعوں یعنی چمڑے اور کاغذ اور آدمیوں کے سینوں سے فراہم کیا، حتیٰ کہ میں نے سورت توبہ کے آخری الفاظ: ﴿لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ﴾ سے لے کر آخر کی عبارت تک سیدنا خزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس پائی اور مجھے یہ عبارت اور کسی کے پاس نہ ملی۔ جمع کردہ مصاحف سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، جب تک وہ زندہ رہے اور ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وفات تک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہے، پھر ان کے بعد ان کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس۔ (مشکاۃ، کتاب فضائل القرآن و بخاري کتاب الأحکام) [1] اس حدیث سے چند باتیں پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں : پہلی بات: پہلی بات تو یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں حفاظ کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ میدانِ جنگ میں روانہ کیے جاتے تھے اور قرآن کی حفاظت کا سارا دار ومدار حفاظ کے حافظے پر موقوف تھا اور یہ پورے قرآن کے حافظ تھے، کیوں کہ حافظ القرآن سارے قرآن کے حافظ کو کہتے ہیں ، جب تک اس کی نفی کی کوئی دلیل نہ ہو۔
Flag Counter