Maktaba Wahhabi

500 - 668
سے پا لیا۔ اور وہ آیت یہ ہے۔ ﴿مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ﴾ [الأحزاب: ۲۳] پس ہم نے آیت کو مصحف میں اس کی سورت کے ساتھ درج کر دیا۔ (بخاري و مشکاۃ، باب اختلاف القراء ات و ترمذي، کتاب التفسیر، آخر سورہء توبہ) [1] چند اُمور کا ثبوت: اس حدیث سے مندرجہ ذیل امور کا ثبوت بہم پہنچتا ہے: اول: سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو شامیوں سے قراء ت سن کر جو اندیشہ پیدا ہوا تھا، وہ قراء ت اُن سات قراء ،توں میں سے ہر گز نہیں تھی جن قراء ،توں پر قرآن نازل ہوا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق تمام صحابہ رضی اللہ عنہم میں یہ قراء ،تیں رائج تھیں اور نہ ان سات قراءتوں کے سبب الفاظ میں کچھ تبدیلی ہو سکتی ہے اور وہ قرآن میں اب بھی شامل ہیں ۔ لہٰذا صحابہ رضی اللہ عنہم کا ان کو یہود و نصاریٰ کی کتب سے تشبیہ دینا درست نہیں ہو سکتا۔ یہودی اور عیسائی جس طرح اپنی کتابوں میں کمی بیشی کرتے تھے، صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس سے تشبیہ دینا صرف اس صورت میں صحیح ہو گا کہ قرآن کی آیات میں بھی کمی بیشی کی جاتی، حالانکہ یہ امرِ محال ہے۔ تشبیہ تو ان الفاظ کے ساتھ دی گئی جو صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر اپنی اپنی یادداشت کے لیے بعض آیات کے ساتھ لکھ رکھے تھے، پھر آہستہ آہستہ ان کا عام رواج ہونے لگا۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطرہ اور اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر اس طرح قرآن کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ بھی پڑھے جاتے رہے تو بعد میں آنے والی نسلیں ان تفسیری الفاظ کو بھی کہیں جزوِ قرآن ہی نہ سمجھنے لگیں ۔ دوم: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسی شاذ قراء توں کو قرآن سے الگ کرنے کی ایک یہ بھی تدبیر سوچی کہ ان میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے جمع کردہ قرآن کو، جو در اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوشتوں سے جمع کیا گیا تھا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دے کر جمع کرایا۔ اس قرآن کا رسم الخط بھی قریش کی زبان میں تھا سوائے
Flag Counter