Maktaba Wahhabi

505 - 668
ایسے جھوٹے اور من گھڑت واقعات قرآن کی معجزانہ حفاظت کے مطلع کو کبھی غبار آلود نہیں کر سکتے اور قرآن کی محافظت کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا ایسا ہی ہے، جیسا کہ یہودیوں کے اتہامات حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدایش کے متعلق ہیں ۔ پھر اگر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے کچھ رعب ڈالا جاتا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ برسرِعام قرآن کو چھپا لینے کا اعلان نہ کرتے۔ نامعلوم ان کے اس اعلان سے لوگوں نے قرآن کے نسخوں کو چھپا لیا یا خوشی سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا۔ اس کے متعلق کسی صحیح حدیث میں فیصلہ نہیں ہوا۔ بہر حال یہ نسخے بعد میں شائع نہیں ہوئے۔ حضرت عثمان نے قرآن نہیں جلایا تھا: اس کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سیکڑوں حافظ موجود تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ مقرر ہونے سے پہلے تمام عرب اور دوسرے ملکوں میں اسلام کثرت سے پھیل چکا تھا، جن ممالک پر مسلمانوں کی حکومت تھی، وہاں مسجدیں بھی بن گئی تھیں اور اہلِ اسلام کے پاس حفاظ کے علاوہ لکھے ہوئے قرآن بھی موجود تھے۔ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام حفاظ کے سینے سے نکال کر اور دور دراز ملکوں سے فوراً سارے قرآن جمع کر کے جلا دیے ہوں ۔ در اصل آپ نے ان تمام نسخوں کو جلا دیا جو آپ کو اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم سے مل سکے۔ اب ہمارا دعوی اور بھی زیادہ قوی اور مضبوط ہو گیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر گز ہر گز قرآن کو نہیں جلایا اور نہ متنِ قرآن میں ذرہ بھر تبدیلی کی۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قرآن میں ایک حرف کا بھی تصرف کرتے یا اس میں سے کچھ کم کرتے ہوئے جلا دیتے تو صحابہ رضی اللہ عنہم میں بے شمار حفاظ موجود تھے، جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی ہی میں قرآن کو لکھ کر شائع کر دیتے اور اعلان کرتے کہ یہ اصل قرآن ہے یا ان کی شہادت کے بعد ہی ان کے جمع کردہ قرآن کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی طرف سے کوئی قرآنی نسخہ مشتہر کرتے۔ بحمد اللہ ایسی کوئی بات وقوع میں نہیں آئی۔ پھر اگر کوئی شخص سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر قرآن جلانے کا شبہہ کرتا بھی تو آپ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا والا خالص اور مکمل قرآن جو پہلے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھایا، پھر جس کو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جمع کیا، دکھا کر اس کو مطمئن کر سکتے تھے۔
Flag Counter