Maktaba Wahhabi

507 - 668
سرا سر نا انصافی: اس پیش کردہ روایت کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت چوتھے اور پانچویں طبقے کی ہے، جس کی تصحیح اور تحسین معدوم ہے۔ ایسی بے بنیاد روایات سے قرآنی حفاظت کی نورانیت پر پردہ ڈال کر عوام الناس میں شکوک و شبہات پیدا کرنا سراسر نا انصافی ہے۔ نیز اگر اس روایت کے متن پر غور کیا جائے تو وہ بھی صحیح احادیث کے بالکل خلاف نظر آتا ہے جس کی کوئی معقول توجیہ بھی نہیں ہو سکتی۔ مشکات کے باب فضائل القرآن کے حاشیے پر علامہ ابنِ حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے منقول ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ۲۵ھ میں قرآن کو جمع کرایا، یعنی اپنے خلیفہ مقرر ہونے کے ایک سال بعد اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی وفات ۴۵ھ میں ہوئی۔ (الإکمال في أسماء الرجال، بمشکاۃ) سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی گزر گیا: گویا قرآن کے جمع ہونے سے لے کر پورے بیس سال کا عرصہ گزر گیا اور اتنے دراز عرصے میں کسی ایک شخص کو بھی شک کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ حالانکہ اس عرصے میں خلافتِ عثمانیہ کا وقت بھی تھا، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ، پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا وقت بھی گزر گیا اور کسی نے قرآن کے متعلق ایک لفظ تک اپنی زبان سے شک کا نہیں نکالا، تو مروان کی حکومت میں کس طرح شک پیدا ہو سکتا تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے تو صرف اس غرض سے اس نسخے کو محفوظ رہنے دیا تھا کہ کل کو اگر کوئی شک کرے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا شائع کردہ قرآن صحیح نہیں تو اس کو اصل مسودۂ قرآن دکھا کر اس کا شک دور کیا جا سکے۔ پھر اگر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والا قرآن ان کے نسخے کے ایک ذرہ بھر بھی خلاف ہوتا تو یقینا آپ اسے بھی جلا دیتے، لیکن جب آپ نے اس نسخے کو محض اسی غرض کی بنا پر محفوظ رکھا تھا کہ اعتراض کرنے والے کی تسلی کی جائے تو مروان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر خلفاے راشدین کی مخالفت کرتا ہوا اس نسخے کو کس طرح ضائع کر سکتا تھا؟ پھر اگر مروان کے اس فعل کو صحیح تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی قرآن کی معجزانہ حفاظت پر کسی قسم کا شبہہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس نسخے کی موجودگی ہی میں بیس سال کے طویل عرصے میں بے شمار قرآن منقول ہو کر مشتہر ہو چکے تھے۔ پھر وہ کون سی الہامی کتاب ہے جس کا پہلا مسودہ اتنے دراز عرصے تک موجود رہا ہو، جس طرح قرآن کا مسودہ محفوظ رہا ہے؟
Flag Counter