Maktaba Wahhabi

517 - 668
دوسری آیت: پھر سورت یونس کے ساتویں رکوع میں بھی اسی طرح کی ایک آیت موجود ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری اختیار کی، ان لوگوں کے لیے دنیا کی زندگانی اور آخرت میں بھی خوش خبری ہے اور اللہ کے کلمات کو کوئی بھی بدلنے والا نہیں ہے۔[1] اس آیت کا مطلب بالکل صاف ہے، یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے ایماندار بندوں کو خوش خبری کا وعدہ فرمایا ہے کہ یہ وعدہ جو ہم آپ سے کر رہے ہیں ، اس میں ہر گز کمی نہیں ہو گی اور نہ کوئی اور ہماری بات کو بدل سکتا ہے۔ دراصل یہ لوگ سیاق و سباق کو چھوڑ کر جہاں بھی یہ لکھا ہوا دیکھ لیتے ہیں کہ ﴿لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ﴾ تو ان کی نظر فوراً بائبل کی طرف جا پڑتی ہے کہ ہو نہ ہو یہ آیت بائبل ہی کے متعلق ہے، حالانکہ جب تک کسی کتاب کا سیاق سباق نہ پڑھا جائے، اصل مقصدِ کتاب تک پہنچنا نا ممکن ہے۔ لالچی پادری اور پوپ: پھر اس کے بعد صاحبِ میزان الحق نے یہ دعوی بھی پیش کیا ہے کہ قرآن مجید بائبل کو کتاب اللہ اور کلام اللہ اور فرقان یا ذکر اور نورِ ہدایت اور رحم کے نام سے یاد کرتا ہے اور ازروئے قرآن مسلمان کے لیے بائبل پر ایمان لانا واجب ہے، جیسا کہ قرآن نے ذکر کیا ہے۔ (میزان الحق حصہ اول باب نمبر۴) آپ لوگوں کا یہ دعوی بھی بالکل بے بنیاد ہے۔ مندرجہ بالا نام ان آسمانی کتابوں کے متعلق استعمال کیے گئے ہیں ، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی تھیں ۔ یہ نام اِس موجودہ بائبل کے متعلق ہر گز ہر گز نہیں ، کیونکہ قرآن نے تو مروجہ بائبل کو محرف و مبدل قرار دیا ہے، جیسا کہ اس سے پہلے آپ پڑھ چکے ہیں ۔ چنانچہ ان ہی اصل کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ تحقیق دیا ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان اور روشنی اور ذکر۔ (سورۃ الأنبیائ، رکوع ۴) [2]
Flag Counter