Maktaba Wahhabi

521 - 668
بے شک ان لوگوں نے اپنی کتابوں کو ضائع و برباد کر دیا تھا۔ چنانچہ تفسیر جامع البیان میں لکھا ہوا ہے کہ ان لوگوں نے تورات اور انجیل کی تصدیق نہیں کی تھی، بلکہ ان کو محرف و مبدل کر دیا تھا۔ تو اس آیت میں بائبل کی حفاظت کے متعلق اشارہ تک نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس بائبل کی تحریف لفظی کا ثبوت موجود ہے۔ واضح رہے کہ آیت میں تورات اور انجیل کے ساتھ جو اتارا گیا کا ذکر ہے تو اس کی تفسیر میں جامع البیان اور ابن کثیر میں لکھا ہوا ہے کہ اس سے مراد انبیا علیہم السلام کی وہ کتابیں ہیں جو تورات اور انجیل کے علاوہ نازل کی گئی ہیں یا پھر اس سے مراد قرآن ہے۔ پس اگر یہ کہا جائے کہ اس سے مراد انبیا علیہم السلام کی وہی کتابیں ہیں جو بائبل میں موجود ہیں تو پھر یہ معنی ہوں گے کہ جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی من گھڑت تحریف سے تورات اور انجیل کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی، اسی طرح دوسری کتابوں کے ساتھ بھی سلوک کیا۔ اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بعض مفسرین کے قول کے مطابق اس سے مراد قرآن بھی لیا جائے تو لازماً ماننا پڑے گا کہ اہلِ کتاب نے جس طرح تورات اور انجیل کو قائم نہیں رکھا اور اُن میں تحریف کر دی، اسی طرح انھوں نے قرآن کو بھی قائم نہیں رکھا اور اس میں بھی تبدیلی پیدا کر دی، کیونکہ یہاں قائم نہ رکھنے میں تورات، انجیل اور قرآن مساوی ہیں ۔ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تورات اور انجیل کو قائم نہ رکھنے کا سبب تو خود ان کی تحریف لفظی ہے، جیسا کہ مفسرین کے اقوال سے ثابت ہے۔ یہود و نصاریٰ کا قرآن سے انکار: اس کے علاوہ تحریف لفظی کے ثبوت میں خارجی دلائل بھی بے شمار ہیں ، جیسا کہ آپ اوپر پڑھ چکے ہیں ۔ اس کے برعکس قرآن ہے جس میں تحریف کا پایا جانا محال اور ممتنع ہے اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن ہر طرح کی تبدیلی سے پاک اور منزہ ہے اور قرآن مجید اور حدیث قطعی کی نصوص بھی اس پر شاہد ہیں کہ قرآن کی حفاظت کا ذمے دار خود خدا تعالیٰ ہے۔ پس اب قرآن کے نہ قائم کرنے کا سبب تحریف تو ہر گز نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ نے قرآن مجید کا کلامِ الٰہی ہونے کا سرے سے ہی انکار کر دیا اور اپنی کتابوں کے بعض مقامات جہاں قرآن کے متعلق صاف صاف پیش گوئیاں اور بشارتیں تھیں ، ان آیات کو کاٹ کر الگ کر دیا اوران میں من مانی تحریف کر دی اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ
Flag Counter