Maktaba Wahhabi

527 - 668
سے آلودہ نہیں ہوا۔ 3۔ تیسرا حصہ وہ جو قرآن اور حدیث کی تعلیم کے بالکل برعکس اور خلاف ہے، بلکہ ایسا متضاد و متناقض ہے کہ قرآن اور حدیث سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والا بھی اس تیسرے حصے کی گفتگو کو کبھی صحیح تسلیم نہیں کر سکتا، جیسا کہ خود مسیحی حضرات اور خصوصاً ان کے پادری صاحبان کو اس بات کا اعتراف ہے کہ قرآن کا بہت سا حصہ بائبل کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ صاحبِ میزان الحق نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق جو بیان کیا ہے، تورات کی تعلیم کا بہت سا حصہ اس سے نہیں ملتا، حالانکہ قرآن تورات کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر قرآن نے سورت انعام میں حضرت ابراہیم کے باپ کا نام آزر بتایا ہے اور تورات کتاب پیدایش (باب ۱۱ آیت ۳۱) میں حضرت ابراہیم کے باپ کا نام تارخ ہے۔ قرآن نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بیان فرمایا ہے کہ آپ کو فرعون کی بیوی نے اپنے لیے پسند کر کے بیٹا بنا لیا، جیسا کہ سورت قصص میں مفصل ذکر ہے اور تورات نے کہا ہے کہ حضرت موسیٰ کو فرعون کی بیٹی نے متبنیٰ بنا لیا تھا۔ (خروج کی کتاب ب ۲ آیت ۱۰) حالانکہ تورات کا یہ بیان کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی بیٹی نے متبنیٰ بنا لیا تھا، بالکل صحیح تسلیم نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بہت سے واقعات جو بائبل نے بیان کیے ہیں ، اگر ان کو تاریخی معیار پر بھی پرکھا جائے تو ہرگز پورے نہیں اترتے، جیسا کہ قرآن نے ذکر کیا کہ فرعون کی حکومت کے وقت ہامان فرعون کے بہت قریب اور مشیروں سے تھا، لیکن بائبل میں آستر کی کتاب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہامان اخسویرس بادشاہ کا منظورِ نظر تھا۔ (آستر ب۳ آیت ۷ تا ۱۱) یعنی فرعون کی بادشاہی کے دنوں میں ہامان مصر میں نہیں تھا، بلکہ صد ہاسال بعد ملک فارس میں تھا اور یہ آستر کی کتاب میں تحریف کا نتیجہ ہے۔ چند اہم واقعات: اس کے علاوہ پادری صاحب نے اور بھی بہت سے مقامات ذکر کیے ہیں ، جن کو ہم بخوفِ طول کلامی نظر انداز کرتے ہیں اور بعض ایسے واقعات جو اہم ہیں یہاں لکھ دیتے ہیں ، جن کا قرآن اور حدیث کی تعلیم سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے:
Flag Counter