Maktaba Wahhabi

536 - 668
اب ہم وہ واقعات پیش کرتے ہیں جن کا حضرت موسیٰ تک کسی لحاظ سے تواتر تک پہنچانا ناممکن اور بعید از قیاس ہے۔ بے بنیاد ستون: اب آپ اسی واقعہ کو لے لیجیے جو کتاب پیدایش ۱۳ باب ۱۸ آیت میں درج ہے: ’’اور ابرام نے اپنا ڈیرا اٹھایا اور ممزے کے بلوطوں میں ، جو حبرون میں ہیں ، جا کر رہنے لگا اور وہاں خداوند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ حبرون حضرت ابراہیم کے زمانے میں موجود تھا، حالانکہ حبرون ایک گاؤں کا نام تھا۔ جب یشوع کے زمانے میں بنی اسرائیل نے فلسطین کو فتح کیا تو اس وقت اس گاؤں کا نام حبرون رکھا، کیونکہ اس سے پہلے اس حبرون کا نام قریت اربع تھا۔ چنانچہ یشوع کی کتاب ۱۴ باب اور ۱۵ آیت میں لکھا ہے کہ اگلے وقت میں حبرون کا نام قریت اربع تھا۔ صاحبِ انصاف حضرات کے لیے تویہ ایک واقعہ ہی یہ سمجھ لینے کے لیے کافی ہے کہ یہ کتاب فلسطین فتح ہونے کے بعد میں لکھی گئی ہے اور یہ واقعہ حضرت موسیٰ کے بعد کا ہے، لیکن ہم اس مضمون کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں ، تاکہ عوام الناس کے اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے اور ہمارے عیسائی دوستوں کو بھی معلوم ہو جائے کہ آپ نے جن ستونوں کے سہارے اپنے مذہب کو کھڑا کر رکھا ہے در اصل یہ ستون ہی بے بنیاد ہیں اور آپ اپنے مذہب کی عمارت کی بنیاد ریت پر رکھتے ہیں ، جو ذرا سی تحقیق کی تیز ہوا سے گر کر درہم برہم ہو جاتی ہے۔ کوئی بادشاہ نہیں ہوا: پھر پیدایش کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ بادشاہ جو ملک ادوم پر مسلط ہوئے پیشتر اس سے بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ ہوا ہی نہیں ۔ (پیدایش کی کتاب باب ۳۶ آیت ۳۱) اس سے معلوم ہوا کہ جو بادشاہ ملک ادوم پر قابض ہوئے، بنی اسرائیل کے سب بادشاہوں سے یہ پہلے ہیں ۔ پس ثابت ہوا کہ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب کہ بنی اسرائیل میں چند بادشاہ گزر چکے تھے۔ حالانکہ سموئیل اول باب ۸ میں لکھا ہوا ہے، جس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت
Flag Counter