Maktaba Wahhabi

553 - 668
اختلافِ بائبل کی تحریف کی دلیل ہو سکتا ہے تو قرآن بھی محرف ہے اور اگر قرآن باوجود اختلافِ قراء ت کے محرف نہیں ہے تو بائبل بھی محرف نہیں ہے۔ حقیقت میں یہ ساری کی ساری پیش بندی ہے، جس میں سچائی اور انصاف کا ذرہ بھی نہیں ہے۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ اہلِ اسلام قرآن کی قراء توں کو الہامی مانتے ہیں ، بخلاف عیسائی حضرات کے کہ وہ بائبل کے اختلافات کو مختلف زبانوں میں لکھا جانا اور بعض کو مترجمین کی غلطی خیال کرتے ہیں ، جو بقول ان کے انبیا نہیں ہیں اور پھر اگر بائبل کا اختلاف اس کے انبیا سے منقول ہوتا اور پھر آپس میں متناقض بھی نہ ہوتا تو پھر واقعتا وہ قرانی قراء توں پر قیاس کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہاں چونکہ اختلافاتِ بائبل اس قدر متناقض ہیں اور ہیں بھی محرفین کی تحریف سے پیدا شدہ، لہٰذا ان کو قرآنی قراء ت پر قیاس کر کے اہلِ اسلام پر الزام قائم کرنا بالکل غلط اور انصاف کا خون کرنا ہے۔ تحریفِ پنجم: پھر عہدِ عتیق کی کچھ پیش گوئیاں عہدِ جدید کے مصنفین نے اپنی اپنی کتابوں میں دہرائی ہیں ، لیکن اگر ان پیش گوئیاں کی تحقیق کی جائے تو یہ پیش گوئیاں جہاں جہاں ان مصنفین نے فِٹ کیں ہیں ، ہر گز فٹ نہیں ہوتیں اور یہ انجیل کے لکھنے والے مسیح کی عقیدت میں آ کر خواہ مخواہ اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں ۔ بعض بعض ایسی پیش گوئیاں ہیں جن کا حضرت مسیح سے یا ان کے شاگردوں کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے، لیکن ان مصنفین نے توڑ موڑ کر ہر پیش گوئی کو مسیح کے واقعات پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ چناں چہ مندرجہ ذیل پیش گوئیاں پیش کی جاتی ہیں : 1۔متی کے باب ۱ آیت ۲۲ میں لکھتے ہیں : ’’یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا پورا ہو، دیکھو ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عما نوئیل رکھیں گے۔‘‘ اس انجیل کے مصنف نے یسعیاہ نبی کی پیش گوئی کا ایک حصہ لکھ کر کہہ دیا کہ یہ مسیح کی نسبت پیش گوئی پوری ہوئی۔ اگر اس پیش گوئی کو مسیح کی نسبت تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوئی، کیونکہ پیش گوئی میں تو ذکر ہے کہ اس کا نام عما نوئیل رکھیں گے، لیکن مسیح کا نام نہ اس کی ماں نے عمانوئیل
Flag Counter