Maktaba Wahhabi

554 - 668
رکھا اور نہ اس کے باپ نے کبھی عما نوئیل کہہ کر پکارا اور نہ کسی حواری نے اور نہ کسی انجیل کے مصنف نے کبھی مسیح کا نام عمانوئیل لکھا، پھر یہ پیش گوئی حضرت مسیح کے متعلق کیوں کر ہو سکتی ہے؟ اصل میں یہ ساری کی ساری پیش گوئی یسعیاہ (باب ۷ آیت ۱۴) میں درج ہے، جس کا مسیح سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔ 2۔پھر اس کے بعد متی (باب ۲ آیت ۲۲) میں ہے: ’’اور ناصرہ نام ایک شہر میں جا بسا تاکہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا۔‘‘ حالانکہ آپ ساری بائبل پڑھ جائیں ، کوئی نبی ایسا نہیں پائیں گے، جس نے یہ پیش گوئی کی ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا۔ یہاں متی کی انجیل کے مصنف نے ویسے ہی ایک بے تکی سی چلا دی ہے جو سراسر جھوٹ ہے۔ 3۔پھر اس کے بعد ایک ایسی بات کو یہودہ اسکریوتی پر فٹ کیا ہے جو کسی لحاظ سے بھی یہودہ کی ذات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ چنانچہ اعمال (باب ۱ آیت ۲۰) میں حضرت داؤد کی دعا، جو وہ اپنے دشمنوں کے حق میں مانگ رہے ہیں اور یہ دعا زبور (باب۴۹ آیت ۲۵) میں موجود ہے اور دعا یہ ہے کہ اس کا گھر اجڑ جائے اور اس میں کوئی بسنے والا نہ رہے۔ اعمال میں صرف یہ دو آیات لکھ کر پھر زبور (باب ۱۰۹ آیت ۸) جا کر نقل کر دی ہے، حالانکہ ان الفاظ کا یہودہ اسکریوتی کی موت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ۔ یہ اور اس طرح کی متعدد بے جوڑ پیش گوئیاں عہدِعتیق سے بے شمار ذکر کی گئی ہیں ۔ لیکن ہم نے بطور نمونہ صرف تین پیش گوئیوں پر اکتفا کیا ہے۔ تحریفِ ششم: انبیا علیہم السلام کی عمروں میں اختلاف، حضرت نوح علیہ السلام کی عمر: صاحبِ اظہار الحق اور صاحبِ الجواب الفسیح نے مندرجہ ذیل ہر سہ نسخوں سے اختلافات ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ان حضرات نے بائبل یونانی و عبرانی اور سامری میں سے انبیا کی عمریں نقل کی ہیں جن میں باہم بہت ہی اختلاف ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ پیدایش باب (۵) حضرت آدم علیہ السلام کی پیدایش سے لے کر نوح علیہ السلام کے طوفان تک عبرانی نسخے کے مطابق ۱۶۵۶ برس بنتے ہیں اور یونانی نسخے کے مطابق ۲۲۶۲ سال بنتے ہیں ۔ گویا ان دونوں بائبلوں میں ۶۰۶ برس کا فرق ہے اور سامری تورات ان دونوں
Flag Counter