Maktaba Wahhabi

631 - 668
مسئلہ حیاتِ مسیح علیہ السلام پہلی دلیل: ﴿وَ قَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا* بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا﴾ [النسائ: ۱۵۷، ۱۵۸] ’’ اور ان کے یہ کہنے کی و جہ سے کہ ہم نے مسیح عیسٰی ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کیا، حالانکہ انھوں نے نہ انھیں قتل کیا اور نہ انھیں سولی پر چڑھایا، بلکہ انھیں شبہے میں ڈال دیا گیا اور بے شک جنھوں نے عیسٰی کے بارے میں اختلاف کیا وہ ضرور ان کے متعلق شک میں ہیں ۔ ان لوگوں کے پاس ان کے بارے میں کوئی علم نہیں سوائے گمان کی پیروی کے اور انھوں نے یقینا انھیں قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انھیں اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ بڑا زبردست ، بہت حکمت والا ہے۔‘‘ اس آیت میں ’’بل‘‘ اضرابی ہے چونکہ اس کے پیشتر کی کلام منفی ہے اور بعد کی کلام مثبت ہے، اس لیے اس کو ’’بل‘‘ اضرابی کہا جاتا ہے اور اس کا ترجمہ یوں ہے: ’’بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ ’’رفع‘‘ کا صلہ جب ’’إلیٰ‘‘ آ جائے تو جسم کے ساتھ اٹھایا جانا مراد ہوتا ہے، خواہ وہ جسم زندہ ہو یا مردہ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے: (( رُفِعَ إِلَی السَّمَائِ)) [آسمان کی طرف اٹھایا گیا] (( ثُمَّ وُضِعَ)) [1] [پھر رکھے گئے]‘‘
Flag Counter