Maktaba Wahhabi

80 - 668
ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔ (متی، باب ۱۰، درس ۵ تا ۶) اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم سارے جہان کے لیے ہوتی تو بوقتِ تبلیغ شاگردوں کو سامریوں کے شہر میں تبلیغ کرنے سے منع نہ کرتے ، اسی طرح اسرائیل کے گھرانے کی خصوصیت نہ فرماتے۔ اگر کوئی یہ عذر کرے کہ سامری مسیح علیہ السلام کے سخت دشمن تھے، اس لیے وقتی مصلحت کو سمجھ کر شاگردوں کو روک دیا تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اسرائیل کے گھرانے کے یہودی لوگ بھی مسیح علیہ السلام کے سخت مخالف تھے ، جنھوں نے انہیں پکڑوا کر پھانسی دلوایا اور طرح طرح کی تکالیف اور اتہام میں مبتلا کیا، جیسا کہ انجیل سے ثابت ہے۔ اگر تبلیغ کے روکنے کی علت مخالفت ہوتی تو شاگردوں کو اپنے زمانے کے یہودیوں میں تبلیغ سے بھی روک دیتے۔ پس ظاہر ہوا کہ ان کی تعلیم صرف بنی اسرائیل کے لیے ہی مخصوص تھی، جیسا کہ مندرجہ ذیل قول اس امر کی خاص شہادت دیتا ہے کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ (متی، باب ۱۵، درس ۲۴ ) کیسا صاف لفظوں میں اقرار کرتے ہیں کہ میری تعلیم بنی اسرائیل کے سوا اور کسی قوم کے لیے نہیں ہے؟ یہ مسیح علیہ السلام کے ارشاد پادری صاحب کے پیش کردہ اقوال کو جو اپنے لفظوں میں عام تھے، خاص کرنے والے ہیں ۔ ان میں مطابقت کی وہی صورت ہے جو ہم نے بیان کر دی کہ تمام دنیا میں جہاں کہیں اسرائیلی آدمی ہوں ، اس طرح جس قوم میں ان کا کوئی فرد ہو، خاص اسی کو تبلیغ کی جائے۔ یہ تطبیق تسلیم نہ کرنے سے انجیل کے ہر دو اقوال میں تناقص لازم آئے گا، جو الہامی کتاب کے منافی ہے۔ پس پادری صاحب کا عام دعویٰ خاص ہونے کی وجہ سے باطل ہوا۔ پانچواں اعتراض: عالمگیر مذہب کی تعریف یہ ہے کہ ہرانسان ہر حالت میں اس کے سب اجزا پر عمل کر سکے۔ یہ تعریف جامع مانع ہے۔ مسیحیت میں چونکہ یہ خوبی پائی جاتی ہے، اس لیے وہ عالمگیر ہے۔ جواب: پادری صاحب کی دلیل کے تمام دعوے غلط ہیں ۔ نہ عیسائیت پر انسان ہر حالت میں عمل کر سکتا ہے (اس کی تفصیل گزر چکی ہے) اور نہ کسی دوسرے مذہب کے متعلق یہ مقدمہ تسلیم کیا جا سکتا ہے
Flag Counter