Maktaba Wahhabi

84 - 668
دنیا میں ہر وقت رسالتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بارھویں آیت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾ [الانشراح : ۴] ’’لَکَ‘‘ میں جو لام جارہ ہے وہ اختصاص کے لیے ہے۔ پس معنی یہ ہوئے: ’’ اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )ہم نے خاص طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )کے ذکر کو بلند کیا، یعنی مشہور کیا۔‘‘ یہ ایسی خصوصیت ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاندار فضیلت اور دائمی مرتبہ حاصل ہوا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نبی اور فرشتہ شریک نہیں ۔ تفسیر جامع البیان اور ابن کثیر میں اس آیت کے ماتحت لکھا ہے کہ دنیا و آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو رفعت بخشی گئی۔[1] رفعِ ذکر: اب یہ امر قابلِ غور ہے کہ رفع ذکر کی کیفیت کس طرح عطا ہوتی ہے؟ پہلی قسم: اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں سے وعدہ لیا تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائیں اور اپنی امتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم فرمائیں ۔ چنانچہ ہر نبی نے اس میثاق کی بنا پر اپنی امت کو خبر سنائی اور ان کی کتابوں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت مذکور تھی، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش سے پہلے تمام دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آفتاب کی طرح مشہور تھا، جیسا کہ سابقاً گزرچکا ہے۔ دوسری قسم: پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید نازل فرمایا تو اس میں جہاں اللہ کا ذکر آتا ہے، وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر شریف آتا ہے۔ جس جگہ اللہ کی اطاعت کا ذکر ہے، وہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ذکر بھی ساتھ وابستہ ہے اور جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پروعید اور عذاب ہے، اسی جگہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر بھی عذاب کا وعدہ ہے، جیسے:
Flag Counter