Maktaba Wahhabi

164 - 702
کرو، ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردو۔ ختم شد] اس روایت سے مقابر مسلمین کاعلیحدہ ہونا ثابت ہوا۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ حررہ أبو الطیب محمد شمس الحق عفي عنہ في رمضان ۱۳۲۸ہ 32۔ طاعون کا ٹیکہ لینا: [1] سوال : 1۔شرع شریف کا کیا حکم ہے، اناکیولیشن وبائے طاعونی کا ٹیکہ محض حفاظتِ جان کے لیے مسلمانوں کو لینا عند الشرع شریف کیا ناجائز ہے؟ 2۔اور جس نے ٹیکہ لیا وہ مسلمان کیا نہیں رہتا؟ 3۔کیا کسی وبا یامصیبت کے ازا لہ میں اپنے اور اپنی قوم کے لیے کوشش کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ 4۔کیا ظہورآثار و علامت وبا میں بنظر حفظ صحت نقل مقام چاہیے کہ نہیں ؟ جواب : 1۔صورت مستفسرہ میں ٹیکہ وبائے طاعونی کا مسلمان لے سکتا ہے، جبکہ اس باب میں کوئی ممانعت شرعی نہیں ہے ، کیونکہ جو دوا ٹیکہ کے ذریعہ سے پہنچائی جاتی ہے، اس میں کسی قسم کا نشہ نہیں ہوتا اور نہ بے ہوشی ہوتی ہے، بلکہ اس کے فوری اثر سے طاعون کی سمیت یکلخت دور ہو جاتی ہے اور پھر ٹیکہ لینے والے پر طاعون غالب ان شاء اللہ نہیں ہو تا ہے۔ اور اگر منجملہ ہزارہا آدمیوں کے کسی کے خون میں طاعون کی کچھ سمیت شاید آ بھی جائے تو کچھ نقصان نہیں پہنچتا، جس طرح چیچک کا ٹیکہ خاص و عام کے نزدیک زیادہ فائدہ بخش ہے، ویسا ہی یہ ٹیکہ طاعونی ہزارہا اشخاص کی آزمائش میں مفید ثابت ہوا اور ثابت ہوتا جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے عرصہ تک اس طاعونی ٹیکے کے لینے والوں اور دیگر وسائل سے تحقیق کیا تو ا س کے فوائد پر پورا اطمینان ہوگیا اور کوئی ما نع امرشرعیہ نہ پایا ۔ لہٰذا اپنے قومی بھائیوں کے شک رفع کرنے کے لیے میں نے خود طاعونی ٹیکہ مروجہ لیا تو بفضلہ تعالیٰ میرے تجربے میں بہت فائدہ رساں پایا گیا، اس ٹیکہ سے کسی نوع اور قسم کی طاقت زائل یا کم نہیں ہوتی، نہ کوئی دوسرا مرض پیدا ہوتا، نہ نشہ آتا، نہ کچھ بے ہوشی ہوتی، جس سے کسی وقت کی نماز فوت ہوجائے۔ جب یہ موانع نہیں ہیں تو کوئی قباحت شرعی ٹیکہ لینے میں مانع نہیں ۔ دوا کرنے اور علاج کرانے کی کوئی ممانعت حضرت شارع صلی اللہ علیہ وسلم سے
Flag Counter