Maktaba Wahhabi

235 - 702
یترک إقرارہ للظن المحتمل فإن أمرہ فیہ إلی اللّٰه تعالٰی‘‘[1] [حسن کے مذکورہ اثر کی بنا پر دلیل پکڑی ہے کہ یہ مطلق جائز ہے، کیونکہ محتضر کے حق میں تہمت بعید ہے اور اس لیے بھی کہ وصیت اور قرض کے مابین فرق ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس نے اپنی صحت کی حالت میں اپنے وارث کے لیے کوئی وصیت کی ہے یا اس کے کسی قرض کا اقرار کیا ہے، پھر اس نے رجوع کرلیا تو اقرار سے رجوع درست نہیں ہے بخلاف وصیت کے ، کیونکہ یہاں رجوع درست ہے۔ اور اس بات پر بھی ان کا اتفاق ہے کہ مریض جب کسی وارث کے لیے اقرار کرلے تو اس کا اقرار درست ہوگا، باوجود اس کے کہ وہ اس کے لیے مال کا متضمن ہو اور اس لیے بھی کہ حکم کا مدار ظاہر پر ہوتا ہے اورظن محتمل کی بنیاد پر اس کا اقرار ترک نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اس معاملے میں اس کا معاملہ اللہ کی جانب ہے] 43۔ کسی شیعہ کا سنی کے بھیس میں سنی عورت سے نکاح کر لینا: [2] سوال : ایک آدمی نے فریب دیتے ہوئے اپنے آپ کو سنی مذہب ظاہر کر کے ایک سنی عورت سے نکاح کر لیا۔ جب عورت کو معلوم ہوا کہ یہ شیعہ ہے تو اس سے نفرت کرنے لگی۔ کیا عورت کو فسخِ نکاح کا اختیار ہے یا نہیں ؟ جواب : اس صورت میں عورت کو اختیار ہے۔ در مختار میں ہے کہ اگر مرد نے بتایا کہ وہ آزاد ہے یا سنی ہے یا حق مہر دے سکتا ہے یا خرچ پورا کر سکتا ہے، لیکن اس کے خلاف ثابت ہوا، مثلاً وہ حرام زادہ نکلا تو عورت کو اختیار ہوگا۔[3] (محمد محفوظ اﷲ پانی پتی) یہ جواب صحیح ہے، کیونکہ ناکح نے اپنے آپ کو سنی قرار دیا اور اس کا یہ جملہ نکاح کے لیے شرط تھا، جب شرط مفقود ہوگئی تو مشروط بھی ختم ہوگیا۔ (مہر) محمد عبد الرب، سید محمد نذیر حسین، محمد قطب الدین خان۔ محمد لطف اﷲ۔ پہلا جواب سوال کے مطابق نہیں ہے، کیونکہ سوال یہ نہیں کہ سنی کا نکاح شیعہ سے جائز ہے یا
Flag Counter