Maktaba Wahhabi

238 - 702
علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اگر عورت نے غیر کفو میں نکاح کیا تو اس کے اولیا کو اگرچہ وہ غیر محرم ہوں ، فسخِ نکاح کا اختیار ہے، اگر ان سے رضا کا ظہور نہ ہو۔ اگر مرد نے اپنا حال نہیں بتایا، پھر نکاح کے بعد معلوم ہوا کہ وہ غلام ہے یا ماذون فی النکاح تھا تو اولیا کو فسخ کا اختیار نہیں ہے۔ اگر وہ غلام ہوتے ہوئے اپنے آپ کو آزاد بیان کرے تو عاقد کو فسخِ نکاح کا اختیار ہے۔[1] حصکفی نے بھی درِ مختار میں اسی طرح لکھا ہے۔[2] شعیب علیہ السلام نے اپنی لڑکی کے نکاح میں موسیٰ علیہ السلام سے آٹھ یا دس سال رہنے کی شرط کی تھی۔[3] اگر شرط صحیح نہ ہو تو اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قافلے والوں کو آگے جا کر نہ ملا جائے اور کوئی مہاجر اعرابی کا سامان نہ بیچے اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کی شرط نہ کرے، کوئی آدمی اپنے بھائی کے نرخ پر نرخ نہ کرے، کوئی دھوکا نہ کرے اور دودھ روکے جانور کو فروخت نہ کرے۔‘‘[4] ایسی شرطوں کا پورا کرنا جو درست نہ ہوں ، جائز نہیں ہے، چنانچہ بریرہ کی ولاء رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو دلا دی تھی، حالانکہ انھوں نے بریرہ سے شرط بھی کر لی تھی،[5] چونکہ وہ شرعاً درست نہیں تھی، آپ نے اس کو نافذ نہ کیا۔ حاصل کلام یہ کہ قاعدہ ’’جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط بھی فوت ہو جاتا ہے۔‘‘ درست اور بجا ہے، بشرطیکہ شرط صحیح اور نکاح کے تقاضے کے مطابق ہو اور صورت مسئولہ میں اسی طرح ہے۔ کاش کے معترض اس پر نظرِ انصاف سے توجہ کرتا!! واللّٰه أعلم۔ أبو الطیب محمد شمس الحق 44۔ مفقود الخبرکی بیوی کے نکاح کے بارے میں شریعت کا حکم: [6] شادی شدہ عورت سے نکاح کی حرمت نقل صریح سے ثابت ہے۔
Flag Counter