Maktaba Wahhabi

61 - 702
تحصیلِ علم کے لیے سفر: ۱۲۹۲ھ میں حصولِ علم کے لیے پہلی بار ڈیانواں سے باہر قدم نکالا اور لکھنؤ تشریف لے گئے۔ یہاں مولانا فضل اللہ لکھنوی (م ۱۳۱۱ھ) سے سال بھر تک معقولات کا درس لیتے رہے۔ ۲۶ محرم ۱۲۹۳ھ کو مراد آباد، مولانا بشیر الدین قنوجی (م ۱۲۹۶ھ) کی خدمت میں کتب درسیہ کی تکمیل کے لیے حاضر ہوئے۔ ایک سال سے کچھ زیادہ قیام کرنے کے بعد ربیع الاول ۱۲۹۴ھ میں وطن واپس آئے اور پھر دوبارہ ۲۰ جمادی الاولیٰ ۱۲۹۴ھ کو مولاناموصوف کی خدمت میں مراد آباد پہنچے اور معقولات، بلاغت اور معانی کی کتابیں ، قرآن مجید کا ترجمہ، مشکوٰۃ المصابیح کا کچھ حصہ پڑھا اور قرآن و حدیث اور فقہ و عقائد سے متعلق مسائل کی تحقیق بھی کرتے رہے۔ اوائل محرم ۱۲۹۵ھ میں دہلی میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی (م ۱۳۲۰ھ) کی خدمت میں استفادے کے لیے تشریف لے گئے۔ محرم ۱۲۹۶ھ کے آخر میں میاں صاحب موصوف سے حدیث کی سند حاصل کرکے اپنے مکان واپس آگئے اور درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے۔ چھے سال بعد ۱۳۰۲ھ میں میاں صاحب کی کشش اور محبت دوبارہ ان کو دہلی کھینچ لے گئی، چنانچہ ان سے دوسری سند لے کر ۱۳۰۳ھ میں ڈیانواں تشریف لائے۔ دونوں مرتبہ دہلی میں میاں صاحب کے پاس قیام کی مجموعی مدت تقریباً ڈھائی سال رہی۔ اس عرصے میں ان سے ترجمہ قرآن مجید، تفسیر جلالین، صحیحین، سنن اربعہ، موطا امام مالک، سنن دارمی، سنن دا ر قطنی اور شرح نخبتہ الفکر (نزہۃ النظر) سبقاً سبقاً پڑھی اور فتوے بھی قلم بند کرتے رہے۔ دہلی کے دوسرے سفر میں شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری (م ۱۳۲۷ھ) کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے اورصحیحین وسنن اربعہ کے اطراف پڑھ کر ان سے عام اجازت حاصل کی۔ اس کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں وہ دس بارہ دفعہ علامہ موصوف کی خدمت میں حاضر ہوکر مستفید ہوئے۔ علامہ عظیم آبادی کی یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ ان کو اپنے زمانے کے ان دو جلیل القدر محدثین سے استفادے کا موقع ملا۔ یہ اسی کا فیض تھا کہ ان کی پوری زندگی علم و فن کی اشاعت، درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور دینی علوم خصوصاً حدیث کی شرح و تحقیق میں گزری۔ اتباعِ سنت کا شوق ان پر شروع ہی سے اتباعِ سنت کا شوق غالب تھا۔ عقائد و اعمال میں صحابہ و تابعین اور سلف
Flag Counter