Maktaba Wahhabi

66 - 702
تھے۔ دوسرے جماعتی و غیر جماعتی مدرسوں اور اداروں کی بھی امداد کرتے رہتے تھے۔ مدرسہ اصلاح المسلمین (پٹنہ) جس کی تاسیس مولانا عبدالرحیم صادق پوری کے ہاتھوں ۱۳۱۷ھ میں ہوئی تھی، اس کے عرصہ تک سیکریٹری رہے۔ مدرسہ احمدیہ آرہ کے، جسے مولانا ابومحمد ابراہیم آروی (م۱۳۱۹ھ) نے ۱۲۹۷ھ میں قائم کیا تھا، اہم رکن تھے، اور اس کی تعمیر و ترقی اور انتظامی امور میں بڑے دخیل اور ا س کے سالانہ جلسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ علامہ شمس الحق دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد کے بھی ر کن تھے۔ تہذیب التہذیب اور تذکرۃ الحفاظ وغیرہ ان کے مشورے سے شائع ہوئیں ۔ مصر کے بعض مطابع بھی کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ فضل و کمال: علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی دینی علوم، معقولات اور ادب وغیرہ پر وسیع نظر تھی۔ طالب علمی ہی کے زمانے سے بحث و نظر اور مطالعہ و تحقیق کے عادی تھے۔ اللہ نے ان کو غیر معمولی ذہانت اور قوتِ فہم سے نوازا تھا۔ فقہی مذاہب اور ائمہ کے اختلافات و دلائل پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ ان کے علمی تبحر اور وسعتِ نظر پر ان کی تصنیفات شاہد ہیں ۔ مطالعے کی کثرت، کتابوں کی مزاولت اور فن حدیث میں غیر معمولی اشتغال کی وجہ سے حدیث پر ان کو مجتہدانہ بصیرت حاصل ہوگئی تھی۔ وہ صحیح و ضعیف، راجح و مرجوح، مرفوع و موقوف، محفوظ و معلل، متصل و منقطع اور حدیث کی دوسری تمام انواع و اقسا م کے درمیان نقد و تمییز کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ان کے معاصرین میں کم ہی لوگ کتبِ رجال، ائمہ جرح و تعدیل اور روات کے طبقات وغیرہ سے واقفیت میں ان کے ہم پایہ رہے ہوں گے۔ وسعتِ علم و نظر کا یہ حال تھا کہ اگر کسی کتاب میں کوئی غلطی یا معمولی فرق و اختلاف بھی ہوتا تو وہ ان سے مخفی نہ رہتا، فوراً ہی ا س کی تصحیح فرما دیتے تھے۔ قاضی شوکانی (م۱۲۵۰ھ) نے نیل الاوطار میں اسماے رجال کے اندر جو غلطیاں کی ہیں ، ان کی اپنے ذاتی نسخے کے حاشیے میں تصحیح کردی تھی۔ جامع ترمذی مطبوعہ ہند میں ’’باب ما یقول إذا خرج من الخلاء‘‘ کی سند کے اندر ’’حدثنا محمد بن إسماعیل‘‘ (البخاری) کے بجائے ’’حدثنا محمد بن حمید بن إسماعیل‘‘ طبع ہوتا چلا آرہا تھا، اس واضح غلطی کی سب سے پہلے ان ہی نے نشاندہی فرمائی اور متعدد شواہد و قرائن
Flag Counter