Maktaba Wahhabi

127 - 630
ہوتی تو میں اس حدیث کو حسن (لغیرہ) قرار دیتا۔‘‘(موافقۃ الخُبر الخَبر: ۱/ ۲۴۵) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے بعد اس کے شواہد بیان کیے ہیں مگر اس کے باوجود اس حدیث کو حسن لغیرہ قرار نہیں دیا، کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں ایک سے زائد وجۂ ضعف ہے ۔ ملاحظہ ہو: (موافقۃ الخُبر الخَبر: ۱/ ۲۴۵۔ ۲۴۷) دیگر اسبابِ ضعف: ضعف کے بعض ایسے اسباب ہوتے ہیں جن کی وجہ سے حدیث میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اور یہ اسباب متعدد ہیں۔ ان میں سے چند بیان کیے جاتے ہیں: 1. اگر سند میں مبہم راوی ہو، اس کا شاگرد اپنے اساتذہ سے بیان کرنے میں احتیاط نہ کرتا ہو تو ایسی روایت متابع یا شاہد نہیں بن سکتی۔ 2. سند میں راوی کی کنیت مذکور ہو اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون ہے؟ 3. اس میں متروک اور انتہائی کمزور راویوں کی منقطع اور مرسل روایات بھی داخل ہیں۔ 4. جب ضعیف راوی کسی حدیث کو مرسل بیان کر دے، مثلاً امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ابن بیلمانی ضعیف ہے، جب وہ موصول حدیث بیان کرے تو وہ حجت نہیں، جب وہ مرسل بیان کرے تو کیسے حجت ہوسکتا ہے؟‘‘سنن الدارقطني (۳/ ۱۳۵) اشکال 2: حافظ ابن حزم حجیت کے قائل نہیں: حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی حدیث کی ہزار سندیں ہوں تو وہ تقویت حاصل نہیں کرتیں اور ضعیف کا ضعیف سے ملنے میں محض ضعف کا اضافہ
Flag Counter