Maktaba Wahhabi

183 - 630
یہ واسطہ شریک کے شاگرد حجاج بن محمد بیان کرتے ہیں۔ (الکامل: ۴/ ۱۳۳۴، بیھقي: ۶/ ۱۳۷) حجاج تک سند صحیح ہے، حجاج نے یہ واسطہ ذکر کر کے شریک کے باقی شاگردوں کی مخالفت کی ہے جو ایک جماعت ہے، چونکہ یہ جماعت اس حدیث کو بدونِ واسطہ بیان کرتی ہے، لہٰذا اس کی روایت معتبر ہوگی۔ اگر حجاج کی روایت درست تسلیم کی جائے تو عبدالعزیز بن رفیع کا عطا سے سماع متحقق ہے۔(التاریخ الکبیر: ۶/ ۱۱) اور عبدالعزیز ثقہ اور کتبِ ستہ کے راوی ہیں۔ (التقریب: ۴۵۹۱) گویا اس سند کا مدار ثقہ راوی پر ہے، جو صحتِ حدیث کے لیے نقصان دہ نہیں۔ 3. حافظ عراقی رحمہ اللہ : ’’اس حدیث کو ابو اسحاق نے عطا سے نہیں سنا۔‘‘(شرح الترمذي: ۳/ ۱۲۶/ أ، بحوالہ: سؤالات الترمذي للبخاري للدکتور یوسف الدخیل: ۲/ ۶۸۹) ابو اسحاق السبیعی درجۂ ثالثہ کے مدلس ہیں۔ (طبقات المدلسین، ص: ۵۸) اور ان کی یہ روایت معنعن ہے۔ یہ علت حافظ بیہقی نے بھی ذکر کی ہے۔ (بیھقي: ۶/ ۱۳۷) چوتھی علت: عطاء کی رافع سے روایت منقطع ہے: یہ علت حسبِ ذیل ائمہ نے ذکر کی ہے: 1. امام شافعی رحمہ اللہ : انھوں نے کہا ہے کہ عطا کی ملاقات رافع سے نہیں ہے۔(بیھقي: ۶/ ۱۳۶، معرفۃ السنن والآثار: ۴/ ۴۷۶) السنن الصغیر، حدیث: ۲۲۷۳)
Flag Counter