شاید اسی بنا پر امام حمیدی رحمہ اللہ نے عمرو بن دینار عن عبید بن عمیر کی سند کو سماع پر محمول کیا ہے، بلکہ اس صف میں شامل کیا ہے، جو اپنے استاد کی رفاقت میں معروف ہیں۔
مگر یہ استدلال محلِ نظر ہے، کیونکہ عمر کا یہ حصہ ایسا نہیں، جس میں اس قدر رسوخ پیدا ہوسکے کہ اسے کسی استاد کا خاص شاگرد قرار دیا جا سکے۔ واللّٰه أعلم بالصواب
بہر حال امام حمیدی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ تینوں مثالوں میں سے پہلی مثال ہمارے موقف کی تائید کرتی ہے کہ جو مدلس راوی کسی شیخ کی رفاقت میں معروف ہو تو اس شیخ سے معنعن روایت سماع پر محمول کی جائے گی، اگرچہ وہ کثیر التدلیس مدلس ہی کیوں نہ ہو۔
امام شافعی کے موقف کے خلاف چھٹی دلیل یہ ہے۔
چھٹی دلیل: مخصوص اساتذہ سے تدلیس:
کچھ مدلسین مخصوص اساتذہ سے تدلیس کر تے ہیں۔ اس لیے ان مدلسین کی مخصوص اساتذہ سے روایت میں سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی۔ باقی شیوخ سے روایات سماع پر محمول کی جائیں گی۔ اس کی معرفت کے ذرائع دو ہیں:
۱۔ کوئی ناقدِ فن یہ صراحت کر دے کہ یہ راوی صرف فلاں فلاں سے تدلیس کرتا ہے یا یہ کہ فلاں سے تدلیس نہیں کرتا۔
۲۔ محدثین ناقدین کے تعامل کی روشنی میں یہ بات طے کی جائے کہ یہ فلاں سے تدلیس کرتا ہے اور فلاں سے نہیں کرتا۔
|