Maktaba Wahhabi

283 - 630
دوسرا باب اس باب میں مسئلۂ تدلیس پر وارد شدہ اعتراضات کا تجزیہ کیا جائے گا۔ امام ابن معین کے قول پر اعتراض کا جواب: امام ابن معین کے قول: ’’مدلس جس میں تدلیس کرے اس میں حجت نہیں۔‘‘ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس قول کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جو روایت عن سے بیان کرے تو وہ حجت نہیں۔ بلاشبہ کثیر التدلیس کا یہی حکم ہے مگر قلیل التدلیس کا نہیں۔ کیونکہ محدثین قلیل التدلیس راوی کے عنعنہ پر محض اس لیے تنقید نہیں کرتے کہ اس نے معنعن بیان کیا ہے، بلکہ اس میں کسی نکارت کے تناظر میں تدلیس کو اس کی علت قرار دیتے ہیں۔ ثانیاً: تدلیس شدہ مرویات پیش کرکے یہ باور کرانا بھی درست نہیں کہ ’’دَلَّسَہٗ‘‘ کو ’’عَنْعَنَہٗ‘‘ قرار دینا درست ہے۔ معلوم شد مدلس جب تدلیس کرتا ہے تو روایت میں سماع کی توضیح نہیں کرتا۔ اگر وہ تدلیس شدہ روایت کو حدثنی یا حدثنا جیسے صیغوں سے بیان کرے گا جن صیغوں میں تاویل کی گنجایش نہ ہوگی تو وہ جھوٹ ہوگا۔ بایں وجہ مدلس درجۂ ثقاہت سے گر کر کذاب ٹھہرے گا۔ اگر مطلقاً عنعنہ سے تدلیس کا اثبات مقصود ہے توایسی مثال ذکر کرنی چاہیے تھی جس میں قلیل التدلیس راوی کی روایت میں محدثین نے کوئی علت و نکارت بیان نہ کی ہو، محض اس کے عنعنہ کی بنا پر اسے ضعیف قرار دیا ہو۔
Flag Counter