Maktaba Wahhabi

285 - 630
۱۔ یہ موقف جمہور کے خلاف ہے۔ ۲۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اسے نقل کرنے کے باوجود مخالفت کی ہے۔ ۳۔ متقدمین مثلاً تیسری صدی ہجری تک تدلیس کرنے والے عام راویوں کے بارے میں قلیل اور کثیر التدلیس کی صراحتیں ثابت نہیں۔ ۴۔ یہ مفہومِ مخالف ہے۔ نصِ صریح کے مقابلے میں مفہومِ مخالف حجت نہیں۔ ۵۔ یہ قول منسوخ ہے۔ خود امام ابن مدینی رحمہ اللہ نے سفیان ثوری کے بارے میں فرمایا: لوگ سفیان کی حدیث میں امام یحییٰ القطان کے محتاج ہیں، کیونکہ وہ مصرح بالسماع روایات بیان کرتے ہیں۔ ۶۔ ابن مدینی رحمہ اللہ کے قول کو اہلِ حدیث، احناف، شوافع اور دیوبند نے قبول نہیں کیا۔ بلکہ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ اور مولانا سرفراز صفدر بھی اس موقف کو نہیں اپناتے۔ ۷۔ کون کثیر اور کون قلیل التدلیس تھا؟ اس مسئلے کو متقدمین سے ثابت کرنا اور عام مسلمانوں کو اس پر متفق کرنا نہایت مشکل ہے۔ ۸۔ اختلافی مسائل کی کتابوں اور مناظراتِ علمیہ میں یہ اصول غیر مقبول ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ثابت ہے۔ اب ترتیب وار ان اعتراضات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔ جمہور قلت و کثرت کے قائل ہیں: پہلے اعتراض کا جواب ہے کہ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کا قول مسلکِ محدثین کی اساس ہے، کیونکہ وہی تو اہلِ اصطلاح کے سرخیل ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سفیان ثوری کے بارے میں کہا: ان کی تدلیس کتنی کم ہے!! امام مسلم رحمہ اللہ نے مقدمۂ صحیح مسلم میں ’’ممن عرف و شھربہ‘‘ کی قید کیوں لگائی؟
Flag Counter