Maktaba Wahhabi

287 - 630
دور ہے۔ جس میں امام مسلم رحمہ اللہ نے مقدمۂ صحیح اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے العلل الصغیر میں مصطلح کے کچھ مسائل ذکر کیے ہیں۔ باقاعدہ طور پر مستقل کتب کی صورت میں اس فن کی داغ بیل نہیں ڈالی گئی۔ بعد ازاں دیگر علوم و فنون کی طرح اس میں بھی بالیدگی رونما ہونے لگی اور مصطلح پر مستقل کتب تصنیف کی جانے لگیں۔ جن کا سر چشمہ دو چیزیں تھیں۔ ۱۔ محدثین کے صریح اقوال۔ ۲۔ ان کے تعاملات سے اصطلاحات کا استخراج۔ یہ دونوں صورتیں مسئلۂ تدلیس میں موجود ہیں۔ یعنی قلت اور کثرت کے حوالے سے صریح اقوال بھی موجود ہیں۔ کثیر التدلیس سے صراحتِ سماع کا تقاضا کرنے والی نصوص بھی دستیاب ہیں۔ اب پہلی صورت ملاحظہ فرمائیں: قلیل التدلیس کی صراحت: ۱۔ امام بخاری نے سفیان ثوری کے بارے میں فرمایا: ’’ما أقل تدلیسہ!‘‘ ’’ان کی تدلیس کتنی کم ہے!‘‘ (علل الترمذي: ۲/ ۹۶۶، التمھید: ۱/ ۳۵، جامع التحصیل: ۱۳۰، النکت لابن حجر: ۲/ ۶۳۱) ۲۔ امام ابن معین نے ربیع بن صبیح کے بارے میں فرمایا: ’’ربما دلّس‘‘ ’’وہ بسااوقات تدلیس کرتے ہیں۔‘‘ (التاریخ لابن معین: ۱۱۱، فقرۃ: ۳۳۴، روایۃ الدارمي) ۳۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ ، عکرمۃ بن عمار ابو عمار کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ربما دلس‘‘ (الجرح والتعدیل: ۷/ ۱۱)
Flag Counter