Maktaba Wahhabi

291 - 630
فرماتے ہیں: ’’میں اس سے کچھ نہیں سنتا، ہاں، وہی چیز سنتا ہوں جس میں وہ کہتے ہیں: حدثنا۔‘‘ (الجرح والتعدیل: ۹/ ۱۳۸) ۳۔ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حجاج بن ارطاۃ صدوق ہے۔ ضعفاء سے تدلیس کرتا ہے۔ اس کی حدیث لکھی جائے گی۔ وہ حدثنا کہے تو صالح (الحدیث) ہے۔ جب وہ سماع کی توضیح کرے تب اس کے حفظ و صداقت میں شائبہ نہیں کیا جائے گا۔ اس کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جائے گی۔‘‘(الجرح والتعدیل: ۳/ ۱۵۶) ۴۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب ابن جریج کہے: قال فلان، قال فلان، أخبرت تو وہ منکر روایت بیان کرتے ہیں۔ اور جب وہ کہے: أخبرني، سمعت تو اس پر قناعت کیجیے۔‘‘ (تاریخ بغداد: ۱۰/ ۴۰۵) مفہوم مخالف پر بے جا اعتراض: چوتھے اعتراض کے حوالے سے گزارش ہے کہ وہ ’’نص صریح‘‘ کیا ہے؟ کاش! اس کی وضاحت ہو جاتی تو ہمارے لیے اس پر تبصرہ کرنے کی کوئی سبیل پیدا ہوسکتی۔ یہ مستبعد نہیں کہ ’’نص صریح‘‘ سے مراد ہو: ’’لوگ سفیان کی حدیث میں یحی قطان کے محتاج تھے، کیونکہ وہ مصرح بالسماع روایت بیان کرتے تھے۔ علی بن مدینی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ سفیان تدلیس کرتے تھے اور یحییٰ القطان رحمہ اللہ ان کی صرف مصرح بالسماع روایتیں ہی بیان کرتے تھے۔ (الکفایۃ)
Flag Counter