Maktaba Wahhabi

295 - 630
کے وقت) کیا۔‘‘ (ترمذي: ۲۵۷) اس حدیث کو سفیان ثوری کی وجہ سے محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ضعیف گردانا ہے۔ تفصیل کے لیے محترم المقام مولانا زبیر حفظہ اللہ کی کتاب ’’نور العینین‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ رابعاً: امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ نے اسماعیل بن ابی خالد، جو طبقۂ ثانیہ کے مدلس ہیں، کی معنعن روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ (سؤالات أبي إسحاق ابن الجنید لابن معین: ۱۲۴، فقرۃ: ۳۱۰؛ التاریخ لابن معین: ۴/ ۲۰۴، فقرۃ: ۳۹۶۳، ۴/ ۲۹۸، فقرۃ: ۴۴۹۰، روایۃ الدوري؛ معرفۃ الرجال لابن معین: ۲۲۳، فقرۃ: ۸۴۴، روایۃ ابن محرز) مقامِ تأسف ہے کہ ایک صاحب رقمطراز ہیں: ’’إسنادہ ضعیف إسماعیل بن أبی خالد عنعن‘‘ ’’اس کی سند اسماعیل بن ابی خالد کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ‘‘ خامساً: امام ابن مدینی رحمہ اللہ کے واضح قول کے مقابلے میں کسی مبہم قول سے استنباط بھی درست نہیں۔ بالخصوص ان کے مابعد محدثین امام بخاری رحمہ اللہ ، امام مسلم رحمہ اللہ وغیرہما اسی منہج پر رواں دواں رہے۔ گویا اہلِ فن تدلیس کی قلت اور کثرت کی تاثیر کے قائل تھے۔ شوافع ہی طبقاتی تقسیم کے بانی ہیں: چھٹے اعتراض کے حوالے سے عرض ہے کہ شوافع کی خوش قسمتی ہے کہ حدیث کی خدمت بااعتبارِاصطلاحات انہیں کے مقدر میں آئی۔ دوسرے مکاتبِ فکر مثلاً مالکیہ اور حنابلہ کو بہت کم حصہ ملا۔ اہلِ رائے کو تو ان چیزوں سے شغف ہی نہیں۔ انھیں شوافع میں سے سب سے پہلے طبقات المدلسین مرتب کرنے والے حافظ
Flag Counter