Maktaba Wahhabi

348 - 630
کے صفِ اول کے خاص شاگرد ہیں، جب کہ دوسرے طبقہ کے شاگردوں میں ابو عوانہ، ابان بن یزید عطار اور حماد بن سلمہ وغیرہ کا نام آتا ہے۔ تیسرے طبقے میں حجاج بن حجاج باہلی کا نام بھی قابلِ ذکر ہے۔ یہ تمام رواۃ صحیحین کے رواۃ ہیں اور تیمی سے زیادہ ثقہ ہیں۔ پہلی دلیل: اب ان کے ضبط و عدالت میں تقابل ملاحظہ فرمائیں: سلیمان بن طرخان تیمی: ’’ثقۃ عابد‘‘ (التقریب: ۲۸۳۶) 1۔ شعبۃ بن الحجاج امیر المؤمنین فی الحدیث: ’’ثقۃ حافظ متقن‘‘(التقریب: ۳۰۸۷) 2۔ معمر بن راشد بصری: ’’ثقۃ ثبت فاضل‘‘ (التقریب: ۷۶۶۸) 3۔ ہشام بن ابی عبداللہ دستوائی: ’’ثقۃ ثبت‘‘ (التقریب: ۸۲۱۸) 4۔ ابو عوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری: ’’ثقۃ ثبت‘‘ (التقریب: ۸۳۴۱) 5۔ سعید بن ابی عروبۃ: ’’ثقۃ حافظ‘‘ (التقریب: ۲۶۰۸) لیجیے! یہ ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ان رواۃ کے مابین تجزیہ کہ سلیمان صرف ثقہ ہیں اور اس کے باقی ساتھی ضبط و عدالت کے اعلیٰ درجات پر فائز ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض کا شمار تو جرح و تعدیل کے مشہور ائمہ میں ہوتاہے۔ اس لیے سلیمان کے مقابلہ میں جماعت کی روایت کو ترجیح ہوگی۔ کیونکہ پیچھے ہم ذکر کر آئے ہیں کہ جماعت کی روایت فردِ واحد کی روایت پر مقدم ہوگی۔ دوسری دلیل: اب اس ترجیح کا دوسرا قرینہ بھی ملاحظہ ہو کہ یہ رواۃ امام قتادۃ کے خاص بلکہ اخص شاگرد ہیں، ان کا قتادہ سے جو ربط ہے، وہ سلیمان تیمی تو کیا کسی اور کا بھی نہیں۔
Flag Counter