Maktaba Wahhabi

350 - 630
ہشام۔ ان کے باقی تلامذہ حماد بن سلمۃ، ہمام اور ابان وغیرہ ہیں۔ جب سعید، شعبہ اور ہشام کا اختلاف ہو تو شعبہ اور ہشام کی روایت راجح ہوگی۔ (شرح العلل: ۲/ ۶۹۵، ۶۹۶) امام ابوبکر اثرم رحمہ اللہ کے ہاں تیمی، قتادہ کے حفاظ شاگردوں میں نہ تھے۔ (شرح العلل: ۲/ ۷۸۸) بلکہ حافظ بردیجی رحمہ اللہ نے تو یہاں تک فرما کر بات ہی ختم کر دی کہ ’’جب آپ قتادہ کی صحیح حدیث جاننے کا ارادہ کریں تو اس کے لیے شعبہ، سعید بن ابی عروبۃ اور ہشام دستوائی کی روایت کو دیکھیں۔ اگر وہ کسی روایت میں متفق ہیں تو وہ روایت صحیح ہے۔‘‘ (شرح العلل لابن رجب: ۲/ ۶۹۷) لیجیے! قطعت جھیزۃ قول کل خطیب! یہ کیسے ممکن ہے کہ امام قتادۃ ایک جملہ ارشاد فرمائیں، مگر ان اعیان کو اس کا علم نہ ہو سکے اور سلیمان تیمی اس پر مطلع ہوجائیں! پہلے ذکر کردہ وجوہِ ترجیحات میں سے یہاں کم از کم چار وجوہِ ترجیحات پائی جاتی ہیں: 1۔ جماعت کی روایت کو ترجیح۔ 2۔ احفظ اور اوثق رواۃ کی روایت کو ترجیح۔ 3۔ اخص تلامذہ کی روایت کو ترجیح۔ 4۔ جس سند میں حافظ ناقد ہو اس کو ترجیح۔ تیسری دلیل: اس زیادت کو امام بخاری، امام ابن معین، امام ابو داود، امام ذہلی، امام اثرم، امام ابن خزیمہ، امام دارقطنی، امام ابن عمار، حافظ ابو مسعود دمشقی وغیرہم نے شاذ
Flag Counter