Maktaba Wahhabi

403 - 630
امام نسائی کے نزدیک اس کا شذوذ: محترم زبیر صاحب نے اس دوسرے گروہ میں مذکور ائمہ کو اس لیے پیش کیا کہ انھوں نے سنن نسائی کو صحیح کتاب قرار دیا ہے اور امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اس زیادت پر کوئی کلام نہیں کیا، حالانکہ انھوں نے بایں الفاظ اس روایت کی علت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’لا نعلم أن أحداً تابع ابن عجلان علی قولہ ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ ’’ہم نہیں جانتے کہ کسی نے بھی’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ میں ابن عجلان کی موافقت کی ہو۔‘‘ (السنن الکبری للنسائي: ۱/ ۳۲۰، دوسرا نسخہ: ۱/ ۴۷۶) حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس روایت اور امام نسائی رحمہ اللہ کی اس جرح کو نقل کیا ہے۔ (التمھید: ۱۱/ ۳۳) لیجیے! جب صاحبِ کتاب نے اس زیادت کی علت کی نشاندہی فرما دی تو پھر اس کتاب کو ’’صحیح‘‘ سے تعبیر کرنے والے محدثین کی رائے کی حیثیت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے؟ ممکن ہے کہ کوئی معترض کہے کہ امام نسائی نے اس زیادت کو صراحتاً تو شاذ قرار نہیں دیا تو اس حوالے سے عرض ہے کہ متقدمین اکثر طور پر احادیث میں مخفی علل کی نشاندہی فرمایا کرتے تھے۔ متأخرین کی طرح حدیث پر صحت اور ضعف کا صراحتاً حکم بہت کم ذکر کرتے تھے۔ جیسا کہ علل الاحادیث پر مشتمل کتب سے معلوم ہوتا ہے۔ امام اسحاق نے حدیثِ ابی ہریرہ کو صحیح قرار نہیں دیا: رہے تیسرے گروہ والے مصححین امام اسحاق اور امام ابو الفضل
Flag Counter