Maktaba Wahhabi

412 - 630
شمار میں نہیں رکھا۔ جس کی تفصیل آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔ مستزاد یہ کہ اس زیادت کی علت شذوذ ہے اور شذوذ کا کوئی وجود نہیں ہوتا، بلکہ وہ محض راوی کے ذہن اور تخیل میں ہوتا ہے۔ جس گمان کے پیشِ نظر وہ اسے حدیثِ نبوی یا الفاظِ نبوی خیال کرتا ہے۔ اس لیے شاذ الفاظ یا حدیث کو کوئی بھی تقویت نہیں پہنچا سکتا، بالخصوص شاذ روایت، اپنی ہی جیسی روایت کو تقویت نہیں پہنچا سکتی۔ شاذ، شاذ سے مل کر حسن لغیرہ نہیں بنتا: امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی حسن حدیث کی تعریف کی ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک وہ حدیث حسن ہوگی، جو شاذ نہ ہو۔ (العلل الصغیر للترمذي، ص: ۸۹۸، المطبوع بآخر الترمذی) اس قول کی شرح کے لیے ملاحظہ ہو: ’’شرح علل الترمذي لابن رجب (۲/ ۵۷۳۔۵۷۶)‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن لغیرہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شاذ نہ ہو۔ اسی حوالے سے شیخ طارق بن عوض اللہ فرماتے ہیں: ’’وإذا اختلف في ذکر زیادۃ معینۃ في متن الحدیث، أثبتھا بعض الرواۃ ولم یثبتھا البعض الآخر، وترجح لدینا أن من أثبتھا أخطأ في ذلک، وأن الصواب عدم إثباتھا في المتن‘‘(الإرشادات في تقویۃ الأحادیث بالشواھد والمتابعات، ص: ۴۷۔ ۴۸) ’’جب متنِ حدیث میں کسی معین زیادت کے ذکر اور عدمِ ذکر میں اختلاف ہوجائے۔ بعض راوی تو اسے ذکر کریں اور کچھ نہ ذکر کریں۔ اور ہمارے ہاں یہ راجح قرار پائے کہ جنھوں نے اس
Flag Counter