Maktaba Wahhabi

428 - 630
10۔ یہی موقف دکتور خالد بن منصور الدریس کا ہے۔ (الحدیث الحسن: ۲/ ۵۴۰) ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ زیادت کو مطلق طور پر قبول نہیں کرتے، جیسا کہ محترم زبیر صاحب باور کرا رہے ہیں۔ یہاں تک ان کے پہلے قول ’’کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اور زیادت مقبول ہے۔‘‘ کی حقیقت آشکارہ ہوگئی۔ اب امام بخاری رحمہ اللہ کے دوسرے قول کی وضاحت کی جاتی ہے۔ دوسرے قول کا جواب: انھوں نے اپنی تائید میں امام بخاری رحمہ اللہ کا دوسرا قول ذکر کیا ہے کہ انھوں نے ’’لا نکاح إلا بولي‘‘ والی موصول روایت کو زیادۃ الثقہ کی بنا پر قبول کیا ہے۔ جسے ہم پہلے نمبر (۲) کے تحت ذکر کر آئے ہیں۔ انھوں نے امام بخاری رحمہ اللہ کے اس قول سے جو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے رد میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ومن تأمل ما ذکرتہ عرف أن الذین صححوا وصلہ لم یستندوا في ذلک إلی کونہ زیادۃ ثقۃ فقط، بل للقرائن المذکورۃ المقتضیۃ لترجیح روایۃ إسرائیل الذي وصلہ علی غیرہ‘‘ ’’جو میں نے ذکر کیا ہے، جو بھی اس میں غور و فکر کرے گا تو وہ پہچان لے گا کہ محدثین (امام بخاری، امام ذہلی رحمہما اللہ ) نے اس موصول روایت کی تصحیح اس بنا پر نہیں کی کہ وہ محض زیادۃ الثقہ ہے بلکہ اس کی تصحیح کی وجہ وہ مذکورہ قرائن ہیں، جو اسرائیل کی موصول روایت کو دیگر راویوں کی مرسل روایت پر ترجیح دینے کے متقاضی ہیں۔‘‘(فتح الباري: ۹/ ۱۸۴)
Flag Counter