Maktaba Wahhabi

430 - 630
تیسرے قول کا جائزہ: انھوں نے امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے تیسرا قول یہ ذکر کیا کہ امام صاحب نے ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کو شاذ قرار دیا ہے، جس میں وہ مجتہد اور مأجور ہیں۔ گویا وہ فرمانا چاہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اس زیادت بدونِ منافات کو رد کرنا ان کی اجتہادی غلطی ہے، جس بنا پر وہ اکہرے اجر کے حق دار ہیں۔ محلِ تعجب تو یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے جو اقوال ان کے موقف کی تایید کریں وہ تو ’’اصول‘‘ قرار پائیں اور ان میں امام صاحب مجتہد، مُصیب اور دہرے اجر کے حق دار قرار پائیں اور جو اقوال ان کے موقف کی تائید نہ کریں تو ان میں امام صاحب مخطیٔ قرار دیے جائیں۔ سبحان اللہ! حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کو سلیمان تیمی کے وہم ہونے کی بنا پر رد کیا اور اسرائیل بن یونس وغیرہ کی زیادت کو اساسی حیثیت دیتے ہوئے قبول کیا۔ لہٰذا ان کے تینوں اقوال اپنے اپنے محل پر درست ہیں اور وہ تینوں اقوال ہی میں دُہرے اجر کے حق دار ہیں۔ ان شاء اللہ ’’فأنصتوا‘‘ کی زیادت کو شاذ کہنے میں امام بخاری رحمہ اللہ کو اسی وقت مخطیٔ قرار دیا جائے گا جب سبھی متقدمین کے فیصلے کے خلاف ان کا فیصلہ ہوگا اور یہاں تو عالم یہ ہے کہ ان سے قبل اور بعد سبھی متقدمین وہی فیصلہ کر رہے ہیں، جو امام العلل فرما رہے ہیں۔ ان دلائل سے یہ بات بخوبی ثابت ہوچکی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ زیادۃ الثقہ کو قرائن کے تناظر میں پرکھتے ہیں۔
Flag Counter