Maktaba Wahhabi

466 - 630
اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں ذکر کرنا۔ (۴).اور کسی قابلِ اعتماد محدث کا اس پر اعتراض نہ کرنا۔ اس کے صحیح ہونے کی برہان ہے۔‘‘ (اسلام اور موسیقی پر اشراق کے اعتراضات کا جائزہ از استاذ اثری حفظہ اللہ ، ص: ۲۶) لیجیے: ’’قولِ راجح میں متنِ حدیث میں ثقہ راوی کی زیادت کے مقبول‘‘ ہونے کی حقیقت! قارئینِ کرام! فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ استاذ اثری حفظہ اللہ نے زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول کیا ہے یا اس کے درست اور غلط ہونے پر دلالت کرنے والے قرائن کو ملحوظ رکھا ہے؟اور اس حوالے سے ہمارے مہربان جو باور کرا رہے ہیں، وہ کس حد تک حقیقت کے قریب ہے؟ آٹھویں مثال: حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو نوافل میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو انتہائی پست آواز میں جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نہایت بلند آواز میں قراء ت کرتے ہوئے سنا۔ صبح کو صاحبین سے اس انداز میں قراء ت کی حکمت دریافت کی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواباً عرض کیا کہ ’’جس سے میں سرگوشی کر رہا تھا، میں نے اسے سنا دیا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ ! آواز تھوڑی سی بلند کرو۔‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ’’میں ہلکی نیند سوئے ہوؤں کو بیدار کرتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اپنی آواز تھوڑی سی پست کر لیں۔‘‘
Flag Counter