بات معقول نہیں کہ وہ اپنے سابقہ تعاقب کو بھول گئے ہوں جو صرف چار صفحات قبل گزرا ہو اور دوسری حدیث میں ان کی موافقت کر لی ہو۔ بلکہ اس راوی کی پہلی حدیث پر تعاقب معمولی الفاظ سے نہیں کیا بلکہ فرمایا: ’’فأین الدین!‘‘ کیا یہی دین داری ہے!
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس اسلوب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ ضعیف راوی کی پہلی حدیث پر تنقید کرتے ہیں۔ باقی روایات سے خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔
دوسری مثال:
دراج ابو السمح المصری معروف راوی ہے۔ ان کی بتیس روایات میں سے چار روایات پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تعاقب کیا، باقی اٹھائیس روایات پر سکوت کیا ہے۔ اس کی تفصیل ملاحظہ ہو:
رقم طرف الحدیث المستدرک حکم الإمام حاکم حکم الذھبی
1 خیر مساجد۔۔ 209/1 سکت عنہ الحاکم سکت عنہ الذھبی
2 إذا رأیتم الرجل… 212/1 صح دراج کثیر المناکیر
3 إذا أدیت۔۔۔ 390/1 // صح
4 أکثروا ذکر اللّٰہ… 499/1 // سقط الحدیث من تلخیصہ
5 استکثروا… 513-512/1 // صح
6 قال موسی۔۔۔ 528/1 // //
7 أعوذ باللّٰہ۔۔ 532/1 // //
8 قد ہجرت ۔۔ 104-103/2 // واہٍ
9 تشویہ النار۔۔ 246/2 // صح
|