Maktaba Wahhabi

520 - 630
امام ابوحاتم رحمہ اللہ اور حافظ دارقطنی رحمہ اللہ کی اس توضیح کے بعد حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا اسے ’’الصحیح‘‘ میں نقل کرنا، امام ہیثمی رحمہ اللہ کا اس کے رجال کو ثقہ قرار دینا، اور امام البانی ودیگر حضرات کا ظاہر سند کی بنا پر اسے حسن قرار دینا بے فائدہ ہے۔ کیوں کہ بایں سند اس حدیث کا وجود عدم ہی کی طرح ہے اور جس سند یا متن کا یا دونوں کا غلط ہونا متحقق ہوجائے وہ کسی روایت کی کیوں کر تائید کرسکے گا۔ حالاں کہ خود اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ غلط، غلط کو تقویت نہیں پہنچا سکتا: چناں چہ اسی حوالے سے امام البانی رقم طراز ہیں: (( أن الشاذ والمنکر مردود، لأنہ خطأ والخطأ لا یتقوی بہ)) ’’شاذ اور منکر قابلِ ردّ ہیں کیوں کہ وہ غلط ہیں اور غلط سے تقویت حاصل نہیں کی جاسکتی۔‘‘ نیز فرمایا: ((وما ثبت خطؤہ فلا یعقل أن یقوی بہ روایۃ أخری في معناہا، فثبت أن الشاذ والمنکر مما لا یعتد بہ ولا یستشہد بہ، بل إن وجودہ وعدمہ سوائٌ۔)) ’’اور جس (سند یا متن) کا غلط ہونا ثابت ہوجائے تو یہ معقول نہیں کہ اس کے ہم معنی روایت اسے تقویت پہنچائے گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ شاذ اور منکر حدیث کی وہ اقسام ہیں جو کسی قطار وشمار میں نہیں اور نہ انھیں بطورِ شاہد پیش کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کا وجود اور عدمِ وجود دونوں برابر ہیں۔‘‘ (صلاۃ التراویح للألباني، ص: ۵۷) اسی لیے تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: والمنکر أبدا منکر کہ ’’منکر روایت
Flag Counter