Maktaba Wahhabi

569 - 630
پر بھی کلام کیا ہے اور مجموعی حیثیت سے بھی۔ یاد رہے کہ کسی رات کی فضیلت سے اس رات میں عبادت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے اثبات کے لیے علیحدہ نص کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے شعبان کی پندرہویں شب میں کوئی مخصوص عبادت نہیں۔ اس بارے میں عبادت کی جتنی فضیلتیں آئی ہیں وہ احادیث سخت ضعیف، موضوع اور بے اصل ہیں۔ اسی لیے تو حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الأحادیث لا یصح منہا شيء ‘‘ [المنار المنیف لابن القیم، ص:۹۹] ’’کہ اس رات میں عبادت کرنے کی کوئی حدیث بھی ثابت نہیں۔‘‘ اس لیے اس رات کی مخصوص عبادات بدعات اور خرافات ہیں اور دین کے نام پر دھوکا ہیں۔ ان بدعات کو امام ابوشامہ نے الباعث علی انکار البدع والحوادث (ص:۱۲۴۔ ۱۳۷) میں بھی بیان کیا ہے۔ خلاصہ: ان آٹھ حدیثوں میں سے چار احادیث (حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوثعلبہ الخشنی، حضرت عوف بن مالک اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کی احادیث) اضطراب کی وجہ سے معرضِ وجود میں آئی ہیں۔ لہٰذا ان کا وجود اور عدمِ وجود دونوں یکساں ہیں۔ حضرت عوف بن مالک کی حدیث کے علاوہ بھی حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کے احادیث کے راوی ابن لہیعہ ہیں، جو کہ سيء الحفظ اور سماع وروایتِ حدیث میں تساہل کی وجہ سے معروف ہیں۔ ساتویں یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں امام اعمش کثیر التدلیس بلکہ تدلیس التسویۃ کا بھی ارتکاب کرتے ہیں اور محدثین نے أعمش عن أبي صالح
Flag Counter