Maktaba Wahhabi

75 - 630
اس حدیث کی اصل پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘ (فتح الباري: ۸/ ۴۳۹) نیز فرمایا: ’’ان کی اسانید کمزور ہیں، لیکن اختلافِ مخارج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کی اصل ہے۔‘‘ (فتح الباري: ۱۰/ ۴۴۶) اعتبار اور معتبر بہم راویان: حسن لغیرہ کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے یہ نکتہ بھی انتہائی اہم ہے کہ کن کن راویان کا اعتبار کیا جائے گا؟ اعتبار کے معنی ہیں کہ جس حدیث کو بیان کرنے میں راوی منفرد ہو تو اس کی دیگر سندیں تلاش کی جائیں، تاکہ معلوم ہو کہ کوئی اور راوی اس روایت کو بیان کرنے میں اس کا شریک ہے؟ یعنی وہ اسی سند سے انھیں الفاظ یا اس کے ہم معنی حدیث بیان کرتا ہے؟ یا کسی اور صحابی سے وہ روایت مروی ہے؟ محدث کے اس عمل کو اعتبار کہا جاتا ہے۔ دوسرا راوی انھیں الفاظ کو بیان کرے تو وہ متابع کہلائے گا، متابعت کی دو قسمیں ہیں:a. متابعتِ تامہ۔b. متابعتِ قاصرہ۔ متابعتِ تامہ یہ ہے کہ دو راوی کسی ایک صحابی کی حدیث کو ایک شیخ سے بیان کرنے میں مشترک ہوں۔ متابعتِ قاصرہ وہ ہے جو راوی کے شیخ کو حاصل ہوتی ہے، اس طرح کہ کوئی دوسرا راوی اسی حدیث کو اس کے دادا استاذ وغیرہ سے روایت کرتا ہے۔ کن کن رواۃ کا اعتبار کیا جائے گا؟ اس مسئلے کو سب سے پہلے غالباً امام ابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے تفصیل سے بیان کیا ہے، اگرچہ ان سے قبل امام مسلم رحمہ اللہ نے ایک کتاب بنام ’’رواۃ الاعتبار‘‘ لکھی۔ توجیہ النظر إلی أصول الأثر
Flag Counter