Maktaba Wahhabi

114 - 391
وزیر آباد میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کے والدِ محترم جناب مولانا محمد ابراہیم کو اس کی کتابت کی سعادت حاصل ہوئی۔ تحفۃ الاحوذی طبع ہند کی دوسری جلد کی فہرست کے آخر میں ان کا نام: ’’یلوح الخط في القرطاس دھراً‘‘ کا مصداق بنا ہوا ہے۔ ان ابتدائی مراحل کے بعد اس کی پہلی جلد ۱۳۴۶ھ/ ۱۹۲۷ء میں برقی پریس دہلی سے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔ جلد دوم ۱۳۴۹ھ/ ۱۹۳۰ء میں، جلد سوم ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۹۳۳ء میں اور جلد چہارم ۱۳۵۳ھ/ ۱۹۳۴ء میں طبع ہو کر شائقین کے ہاتھوں میں پہنچی۔ 2. مقدمہ تحفۃ الاحوذی: یہ موضوع نام سے ظاہر ہے، جو دو ابواب اور ’’خاتمۃ المقدمۃ‘‘ پر مشتمل ہے۔ پہلا باب علمِ حدیث، محدثینِ کرام اور کتبِ احادیث کے تعارف پرمشتمل ہے۔ جو اکتالیس فصلوں میں پھیلا ہوا ہے اور دوسرا باب امام ترمذی اور ان کی الجامع سے متعلقہ نادر مباحث کو محیط ہے جس کے تحت سترہ فصلیں ہیں۔ یہ مقدمہ ۳۴۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلی بار ۱۳۵۹ھ میں جید برقی پریس دہلی سے زیورِ طبع سے آراستہ ہوا۔ اس کے بعد یہ تحفۃ الاحوذی کے ساتھ متعدد بار شائع ہوا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ تحفۃ الاحوذی جب نشر السنہ ملتان کے مدیر حافظ عبدالمنعم مرحوم نے شائع کرنے کا پروگرام بنایا تو راقم نے ان سے مولانا فیض الرحمان ثوری رحمہ اللہ جو اس وقت بقیدِ حیات تھے، کی کتاب ’’رش السحاب فیما ترک الشیخ مما في الباب‘‘ کا تذکرہ کیا کہ تحفۃ الاحوذی کے ساتھ اسے شائع کرنا چاہیے۔ یوں ’’وفي الباب‘‘ کی تخریج میں جو کمی محسوس ہوتی ہے، اس کا ازالہ ہو گا اور مولانا ثوری رحمہ اللہ کی یہ محنت بھی محفوظ ہو جائے گی۔ چنانچہ انھوں نے تحفۃ الاحوذی کے حواشی میں اسے شائع کر دیا۔ مولانا ثوری رحمہ اللہ نے مقدمہ تحفۃ الاحوذی پر بھی کچھ نوٹ لکھے تھے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے
Flag Counter