Maktaba Wahhabi

186 - 391
مرتب کیا جائے۔ یوں اس کی حیثیت مستقل کتاب کی ہو گی محض جوابی کتاب تصور نہیں ہو گی۔ اس رائے کو دیگر احباب نے درست قرار دیا۔ چنانچہ اسی اسلوب میں اس کا آغاز کر دیا گیا ساٹھ ستر صفحات مرتب ہوئے، مگر ۔ماشاء اللّٰه کان وما لم یشاء لم یکن۔ اور یوں یہ کام ادھورا رہا۔ اسی طرح ’’توضیح الکلام في وجوب القرائۃ خلف الإمام‘‘ جب راقم نے مکمل کی تو اس کی بھی مکمل قراء ت حضرت شاہ صاحب پر کی۔ اس کا مقدمہ لکھنے کا انھوں نے عزم کیا، لیکن اپنی مصروفیتوں کی بنا پر نہ لکھ سکے۔ کتاب چھپ گئی میں مقدمہ کا تقاضا کرتا رہا۔ دو چار صفحات لکھے بھی مگر مکمل نہ کر پائے اور یوں ان کی خواہش کے باوجود یہ کام نہ ہو سکا۔ فوا أسفا تصانیف: حضرت شاہ صاحب بڑے زود نویس تھے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں قوت بیانی کے ساتھ قلم و قرطاس کے ذریعے دینِ حنیف کی صیانت و حفاظت، اس کی تبیین و توضیح کا وافر ملکہ عطا فرمایا تھا۔ عربی، اردو، سندھی تینوں زبانوں میں لکھنے کی انھیں پوری دسترس حاصل تھی۔ عربی زبان میں ابو الفضل کی طرح ان کی غیر منقوط کتاب ’’وصول الإلھام لأصول الإسلام‘‘ عربی ادب میں ان کے کمال کی بیّن دلیل ہے۔ مشکل مسائل کو آسان پیرائے میں بیان کرنا اور حیطۂ تحریر میں لانا ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ جس مسئلے پر بھی قلم اٹھاتے مراجع و مصادر کا انبار لگا دیتے اور مسئلے کا کوئی گوشہ تشنہ تکمیل محسوس نہ ہوتا۔ ان کی تصانیف کی تعداد ایک سو سے متجاوز ہے۔ عربی میں تقریباً ساٹھ، سندھی میں اٹھائیس اور اردو میں بیس سے زائد ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کی تصانیف کا مفصل
Flag Counter