Maktaba Wahhabi

196 - 391
اس کے جواب کا تقاضا کیا تھا۔ میں نے اسی انہاء السکن کے نسخہ کے حواشی پر نقد لکھ کر حافظ فتحی رحمہ اللہ کو دے دیا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا اور کہاں چلا گیا اس کا مجھے علم نہیں۔ حافظ فتحی مرحوم کے کتب خانہ کا ان کے انتقال کے بعد جو حشر ہوا وہ بڑا دلدوز ہے۔ اگر ان کا کتب خانہ محفوظ جگہ پر منتقل ہو جاتا تو حضرت محدث گوندلوی کا یہ جواب بھی شاید مل جاتا۔ مگر آں قدح بشکست وآں ساقی نہ ماند إظہار البرائۃ عن حدیث من کان لہ إمام فقرائۃ الإمام لہ قرائۃ: امام کے پیچھے مقتدی کا فاتحہ پڑھنے پر نزاع بڑا قدیم ہے، جو حضرات اس کے قائل نہیں وہ من جملہ دیگر دلائل کے اسی روایت ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قرائۃ‘‘ سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے اسی روایت کی تحقیق پر ’’إظہار البرائۃ‘‘ کے نام سے مستقل ایک کتاب تصنیف کی ہے جو متوسط سائز کے ۲۳۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں اولاً بارہ صحابہ کرام سے مروی اس حدیث کے تمام طرق پر بحث ہے اس کے بعد ایک خاتمہ ہے، جس میں سات فصلیں ہیں اور ہر فصل نہایت مفید مباحث پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب انھوں نے کن ایام میں مرتب کی ان کی اپنی تحریر سے اس کی کوئی وضاحت نہیں ہوتی۔ البتہ اس کے اختتام پر مندرج تقاریظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب یہ کتاب مستطاب ۱۳۶۳ھ سے پہلے ضبطِ تحریر لائے تھے۔ جب کہ ان کی عمر ابھی صرف اٹھارہ بیس سال تھی۔ اس عمر میں اس روایت کی اسانید اور اُن کے طرق پر جس تفصیل سے انھوں نے بحث کی ہے، اس سے قرونِ وسطیٰ کے محدثین کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۵ء میں جب بٹالہ ضلع گورداس پور میں انجمن اہلِ حدیث
Flag Counter