Maktaba Wahhabi

242 - 391
3. مسند امام احمد اگر اسی شیعہ ابو بکر الشافعی کی ’’کارستانی‘‘ ہے تو مسند میں فضائلِ صحابہ رضی اللہ عنہم پر بہ کثرت احادیث کیوں ہیں۔ 4. دونوں کی کنیت، نام بلکہ باپ دادا کے نام ایک ہیں۔ حتی کہ دونوں بغدادی ہیں۔ البتہ باقی نسب میں اختلاف ہے۔ ایک الشافعی ہے اور دوسرا العنبری اور اسی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صاف طور پر یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ھذا ھو الأشناني المذکور فیما قبلہ‘‘ جسے امام دارقطنی رحمہ اللہ نے دجال کہا ہے۔ افسوس کہ نسب اور نسبت میں بین فرق کے باوجود تمنا صاحب جیسے ’’پختہ علموں‘‘ کو دھوکا ہوا اس فرق کے باوجود دونوں کو ایک ظاہر کرنا علم کی توہین ہے۔ اس کی مکمل تفصیل ’’الاعتصام‘‘ کے ’’حجیتِ حدیث نمبر‘‘ (ص: ۵۵،۵۶) میں دیکھی جا سکتی ہے، جو آج سے تقریباً تینتیس سال قبل ۵ رجب ۱۳۷۵ھ ۱۷ فروری ۱۹۵۶ء میں طبع ہوا تھا۔ ان چند امثلہ سے آپ حضرت مولانا رحمہ اللہ کے ذوقِ رجال و اسناد کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ علمِ رجال کے شوق ہی کا نتیجہ تھا کہ آخری ایام میں جب سیر اعلام النبلاء زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر آئی تو اب صرف دو کام تھے: ایک قرآن پاک کی تلاوت اور دوسرا سیر اعلام النبلاء کا مطالعہ، عیادت کے لیے ایک بار حاضر خدمت ہوا تو فرمایا اب قرآن پاک کی تلاوت کے علاوہ صرف ’’سیر‘‘ کو پاس رکھ لیا ہے جس سے ’’ٹھرک‘‘ پورا کر لیتا ہوں۔ معلوماتِ کتب: اسی کے ساتھ ساتھ آپ کا ایک دوسرا اہم ذوق کتابیات تھا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک صحیح اور پختہ کار عالم کے اوصاف میں ایک ضروری وصف یہی کتابیات کا علم ہے، یعنی اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مثلاً فلاں موضوع پر کس کس نے
Flag Counter