Maktaba Wahhabi

259 - 391
جمع ہو جاتے۔ پھر کیا ہوتا تقریباً شہر بھر کی تمام مساجد میں ایک ہی موقف، ایک ہی آواز اور ایک ہی پروگرام کے سبھی ہدی خواں ہوتے، مگر افسوس ان کے بعد فیصل آباد اس نعمت سے محروم ہو گیا۔ یہی دیکھ لیجیے کہ آج پاکستان کو اس کی صحیح بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے کتاب و سنت کو بالا دست قانون بنانے کی جو آواز ملک کے وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے لگائی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سبھی مل کر یک جاں و یک قالب کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا وزن وزیر اعظم کے پلڑے میں ڈال دیتے۔ مگر صد افسوس کہ یہاں ہر ایک اپنی اپنی بانسری بجا رہا ہے۔ کتاب و سنت جو سب کی مشترکہ متاعِ عزیز ہے۔ اس کے بارے میں بھی یگانگت نظر نہیں آتی۔ آج کوئی رجل رشید نہیں جو کہے: ﴿ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ﴾ [آل عمران: ۶۴] آؤ سب مل کر سب کی مشترکہ میراث کتاب و سنت کی بالادستی کا علم بلند کریں۔ اللّٰھم ألف بین قلوبنا وأصلح ذات بیننا وانصرنا علیٰ عدوک و عدونا۔ ذکر و فکر اور ذوقِ عبادت: حضرت مرحوم کی رفقاقت میں وقت بسر کرنے والے حضرات خوب جانتے میں کہ وہ محض علیم اللسان نہ تھے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انھیں قلبِ شاکر و لسانِ ذاکر کی بھی وافر نعمت عطا فرمائی تھی۔ تہجد اور شب بیداری ان کا معمول تھا۔ عموماً نمازِ فجر باجماعت ادا کر کے مسجد ہی میں ذکر و اذکار میں مصروف رہتے اور صلاۃِ اشراق پڑھ کر گھر تشریف لاتے۔ ان کی مجالس میں بیٹھ کر مجھے عموماً امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد امام یوسف رحمہ اللہ بن یحییٰ ابو یعقوب البویطی اور شیخ ابو الحسن رحمہ اللہ داودی یاد آجاتے۔ جن کے بارے میں تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ ان کے ہونٹ ذکر اللہ سے ہمیشہ حرکت کرتے رہتے۔ شیخ ابو الحسن داودی رحمہ اللہ کے بارے میں تو حافظ
Flag Counter